ریاض فردوسی۔9968012976
اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالٰی پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو ، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالٰی کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالٰی کی آیات سے تکبر کرتے تھے(سورہ
الانعام۔آیت۔93)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد تیس کے لگ بھگ ایسے کذاب اور دجال پیدا ہوں گے جو اپنی نبوت کا دعویٰ کریں گے (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب قولہ ان بین یدی الساعۃ کذابین قریبا من ثلاثین)
ظالم اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر ظالم ہیں کہ انہوں نے براہ راست اللہ پر الزام لگائے انہیں سزا بھی سب ظالموں سے بڑھ کر ہوگی۔ان پر موت طاری ہوتے ہی فرشتے انہیں ڈانٹنا شروع کردیں گے اور نہایت شدت اور سختی کے ساتھ ان کی روحیں قبض کریں گے اسی وقت انہیں اپنی قدر و عافیت ٹھیک ٹھیک معلوم ہوجائے گی اور سب شیخیاں کر کری ہوجائیں گی اور اسی دن سے انہیں رسوا کرنے والے عذاب سے دو چار کردیا جائے گا۔ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ ‘ فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے، یعنی جان نکالنے کے لئے (آج) سے مراد قبض روح کا دن اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبداء قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے۔ چاہے اسے کسی درندے نے کھایا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالٰی قادر ہے۔
اس آیت مبارکہ میں ظالموں کی تین اقسام کاذکر ہے۔
(1)جھوٹے نبی جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا کریں گے حالانکہ محمد رسول اللہ ﷺخاتم النبیین ہیں۔جھوٹے نبیوں میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح بنت حارث،طلیحہ خولید(بعد میں دور فاروقی میں تائب ہو گۓ) اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ایسے ہی دوسرے لوگ وغیرہ۔اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے اسی طرح نبوت و رسالت کا انکار و استکبار ہے۔ ان دونوں وجوہ سے انھیں ذلت و رسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔
(2)وہ جس نے کوئی بات تو خود تراشی ہو اور اللہ کے ذمے لگا دے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں،جو شرک و بدعات کی آڑ میں ظلم کی مختلف اقسام کو ایجاد تو خود کرتے ہیں پھر انہیں شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح ان کے ظلم و بربریت پر مذہبی تقدس کا خول چند ایمان فروش علماء چڑھا دیتے ہیں۔
(3)جو لوگ اللہ کی آیات کا غلط مطلب نکال کر اور ان کی غلط تاویل کر کے غلط سلط فتوے دیتے ہیں اور اس کے عوض عارضی فوائد حاصل کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرچکے ہیں، یا کریں گے کہ ہم بھی قرآن جیسی چیز بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک دفعہ کفار مکہ نے بھی کہا! باالفاظ کتاب اللہ۔
اور جب اُن پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں،یقیناً ہم نے سن لیا ، اگر ہم چاہیں تو ضرور ہم بھی اس جیسا کہیں ، یہ تو پہلے لوگوں کی فرضی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں(سورہ الانفال۔آیت۔ 31)حالانکہ جب قرآن نے ان کو ایسی ایک ہی سورت بنا لانے کا چیلنج کیا تو وہ اپنی بھرپور اور اجتماعی کوششوں کے باوجود اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہو سکے تھے۔
آخر میں!
آل سعود نے جس طرح سے قرآنی آیات کی غلط تاویلیں ایمان فروش علماء اکرام سے کروا کر جنت البقیع میں مدفون اصحاب رسول کی بے حرمتی کی ہے، اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔بقیع اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہوں اور چونکہ اس قبرستان کی جگہ میں پہلے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے عوسج یعنی غرقد کے پیڑ بکثرت تھے اس لیے اس قبرستان کا نام بھی بقیع غرقد پڑ گیا۔اس قبرستان میں نبی کریم ﷺ کے دور سے ہی مسلمانوں کی تدفین کی سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔اس قبرستان میں دفن ہونے والے پہلے صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ تھے۔ان کے بعد اس قبرستان میں محترم اہل بیت و ہزاروں مقدس صحابہ،صحابیہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آسودۂ خاک ہوئے۔ظالم شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کرتے ہوۓ جنت البقیع میں موجود تمام معظم نشانیوں کو مسمار کرنے کا حکم صادر کیا۔ یہ واقعہ 21 اپریل 1926 کا ہے۔ظالم و جابر حکمران آل سعود دراصل سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے بھی معاذاللہ زیادہ محد ثابت ہوۓ،فاروق اعظم نے تو بیت المقدس کی فتح کے بعد وہاں موجود انبیاء علیہم السلام کی پکی قبروں کو کچھ نہیں کیا تھا،لیکن ناپاک عزائم کے ساتھ قائم یہ ظالم حکومت جو طاغوتی طاقتوں کی سب سے بڑی مددگار ہے وہ شائد ابوبکر صدیق و فاروق اعظم اور دیگر توحید پرست اصحاب رسول سے بھی بڑھ دین کی سمجھ رکھنے والے عالم اور توحید کے معاملے میں بہتر ہیں۔(معاذاللہ)
بانی سعودی عرب عبدالعزیز بن سعود اتنے بڑے شریعت اسلامیہ کے پابند تھے کہ ان کی بائیس بیویاں تھیں۔ان میں سے ستّرہ بیویوں کے ہاں پینتالیس بیٹے پیدا ہوئے۔اب السعود کے شاہی خاندان کے شہزادوں کی تعداد 8 سے 9 ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ہاں کرونا کے بہانے ظالم ابن سلمان ہے 150 شہزادوں کو قتل کروا دیا جو حکومت کے دعوے دار تھے۔سعودی عرب میں پہلی بار ہیلووین منایا گیا۔نبی آخر الزماںﷺ کے روایتی لباس کو شیطانی ماسک پہنایا گیا۔سعودی عرب کی سڑکوں پر بھوت ہو یا چڑیل، ہر جگہ ‘شیطان کے ماسک پہنے لوگ نظر آئیں۔ہیلووین ایک تہوار بھی ہے جس کا تعلق شیطانی قوتوں سے ہے اور اسی وجہ سے لوگ بھوتوں یا دیگر خوفناک شکلوں کے ساتھ گھومتے ہیں۔ گزشتہ سال امام نے جمعہ کے خطبے میں ہی کرسمس کی مبارکباد دی۔خواتین کو سعودی حکام نے گاڑی چلانے کی اجازت دی، سینما ہال کا آغاز ہوا،سلمان خان کاشو ہوا۔جدہ WWEکا پروگرام ہوا،واضح رہے کہ جدہ مکہ شریف سے تقریباً 1 گھںنٹہ کا راستہ ہے۔سعودی دار الحکومت ریاض میں Music Festival کے دوران ایک برہنہ لڑکی نے پروگرام میں گھسنے کوشش کی۔سعودی حکومت کے ٹکڑوں پر پرورش پانے والے ایمان فروش علماء ان غیر اسلامی کاموں کی کس طرح سے تاویل پیش کرکے ان کے اس کارنامےکو صحیح قرار دیں گے۔
مختصر تعارف سعودی حکومت!
سب سے قبل یہودی النسل مرد خائی بن ابراہیم بن موسیٰ ” جس نے اپنی خون ریزی اور سفاکیت کا آغاز ایک ایسے انسان کے ساتھ کیا جس نے ” العارض ” ( موجودہ نام ریاض ہے ) میں اس کو پناہ دی تھی ، اس نے گھر کے تمام افراد کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا کر اس کی جائیداد پر قابض ہوگیا ، پھر اس نے اپنے سب سے پرانے حریف قبیلہ ” القسیم ” کے ایک مذہبی رہنما ، مرد صالح ، تقویٰ اور پرہیز گاری کے پیکر ” شیخ صالح سلمان عبد اللہ التمیمی ” کو ایک منصوبے کے تحت قتل کروا دیا ۔یہ وہی بھیڑیا نما شخص ہے جس کی نسل آگے چل کر آل سعود کہلائی ، جس کی فطرت میں اپنے محسنوں کا قتل ، جائداد پر ناجائز قبضہ ، عالم اسلام کے ساتھ غداری ، یہودی ذہنیت کے حامل اور اسلام پسند رہنماؤں اور حق گوئی و بے باکی کے پرستار علماء ، فقہاء ، صلحاء اور محدثین کا خون شامل ہے اور برسوں سے یہی فطرتِ خبیثہ آل سعود خاندان میں کار فرما ہے۔آل سعود کی غداری سے تقریباً کروڈوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے۔