” نہیں ابّو مجھے نہیں جانا”
” کیوں بیٹی؟”
” ابو آپ کے اور امی کے بغیر میں نہیں رہ سکتی”
” بس دو سال کی تو بات ہے خالدہ۔ انشاءاللہ ڈگری ختم ہوتے ہی تم واپس اپنے گھر آ جاؤں گی”
خالدہ اور اس کے والد عقیل کے درمیان یہ گفتگو جاری تھی۔ خالدہ کا داخلہ اپنے گاؤں سے دور ایک شہر کے کالج میں ہوا تھا۔ خالدہ کبھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلی تھی اور وہ ہر گز اپنے ماں باپ سے دور رہنا پسند نہیں کرنا چاہتی تھی۔ خیر تعلیم حاصل کرنا بھی نہایت ضروری ہے اور اپنےکامیاب مستقبل کی خاطر خالدہ یہ قربانی دینے کے لیے بالآخر تیار ہو گئی۔ اپنی امی جان سے رخصت لے کر خالدہ اپنے والد کے ہمراہ گھر سے نکل پڑی۔ عقیل نے خالدہ کو ٹرین میں بٹھا کر چند نصیحت آموز باتوں سے الوداع کیا اور اس طرح خالدہ کے لیےایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔
دو دن کے طویل سفر کے بعد خالدہ شہر پہنچ جاتی ہے۔ شہر کے بازار میں چہل پہل، اونچی اونچی عمارتیں اور ہر طرف شور و غل دیکھ کر خالدہ کو بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ کہاں گاؤں کی پرسکون زندگی اور کہا شہر کی آلودگی؟ خالدہ رکشا میں بیٹھ کر سیدھے اپنے کالج کے ہوسٹل میں چلی جاتی ہے۔ خالدہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہونہار بیٹی تھی۔ ہوسٹل کے ایک کمرے میں دو لڑکیاں ایک ساتھ رہتی تھی اور خالدہ کے کمرے میں نیلم نام کی لڑکی اس کے ہمراہ رہنے لگی۔ نیلم خالدہ کے مقابلے بڑی تیز اور چالاک لڑکی تھی۔ چونکہ نیلم کی پرورش شہر میں ہوئی تھی جہاں اس کا نانیہال تھا اس لیے ابتدا میں خالدہ سے اس کا برتاؤ کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ وہ خالدہ کو ہمیشہ نیچے دکھانے کی کوشش کرتی تھی۔ نیلم کی ان حرکات کی وجہ سے خالدہ کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے طے کیا کہ وہ اپنے رہن سہن میں تبدیلی لا کر بالکل ایک شہری لڑکی کی طرح اپنے آپ میں بدلاو لائے گی تاکہ نیلم کا منہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔
نیلم اور خالدہ کچھ ہی مدت میں اچھے دوست بن گئے اور کالج میں لوگ ان کی دوستی کی مثالیں دینے لگے۔ جو خالدہ حجاب سے محبت کرتی تھی، اب بنا دوپٹے کے رہنے لگی۔ دھیرے دھیرے نماز کی عادت بھی چلی گئی۔ نیلم کے ساتھ رہنے میں خالدہ کے عادات و اطوار میں کافی حد تک بدلاو صاف صاف عیان تھا۔ خالدہ کو اپنے والد سے کئے گۓ وعدوں کا کوئی خیال نہ رہا۔
موبائل فون اور انٹرنیٹ شہر میں تو بآسانی دستیاب تھا لیکن جس گاؤں میں خالدہ رہتی تھی وہاں آج بھی لوگ ایس ٹی ڈی سے ہی ضرورت پڑنے پر فون کیا کرتے تھے اور عقیل بھی ہفتے میں ایک روز اپنی بیٹی سے فون پر حال چال پوچھ لیا کرتا تھا۔ نیلم کے پاس اپنا موبائل فون تھا اور وہ دن رات اس میں لگی رہتی تھی۔ خالدہ کو بھی موبائل فون خریدنے کا بہت شوق تھاپر وہ ایک غریب گھر سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی جس کے باپ نے کافی جدوجہد کرکے اپنی بیٹی کا اس کالج میں داخلہ کرایا تھا۔
نیلم خالدہ کو گھر سے جھوٹ بول کر پیسے منگوانے کی ترکیب بتاتی ہے۔ جب عقیل کا فون آتا ہے تو خالدہ کالج میں فیس جمع کرانے کے واسطے اپنے والد سے پانچ ہزار روپے طلب کرتی ہے۔ پانچ ہزار سن کر عقیل کی حالت خراب ہو جاتی ہے لیکن اپنی بیٹی کی خاطر وہ گائے بیچ کر پیسے اکٹھے کرتا ہے اور پانچ ہزار روپے کا منی آرڈر فوراً خالدہ کے نام روانہ کرتا ہے۔ پیسے ملتے ہی نیلم خالدہ کے لیے بازار سے ایک نیا موبائل فون خرید کر لاتی ہے اور اس کے استعمال کرنے کے طریقے سے خالدہ کو بخوبی واقف کراتی ہے۔
خالدہ موبائل فون ہاتھ میں لیتے ہی گویا ایک نئی دنیا میں چلی گئی۔ وہ گھر کے حالات بھول کر اور اپنے والد کی مجبوری کو نظر انداز کرکے اپنا سارا قیمتی وقت موبائل فون کے ساتھ صرف کرنے لگی اور انٹرنیٹ پر نئے دوست بنانے لگی اور ان سے دن رات بات کرنے لگی۔ جس مقصد سے خالدہ نے کالج میں داخلہ لیا تھا وہ محض اب ایک شوق میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ان اجنبی دوستوں میں ایک کا نام عامر تھا۔ خالدہ دن رات عامر سے انٹرنیٹ پر باتیں کرنے لگی اور نہایت ہی کم وقت میں وہ ایک اچھے دوست بن گئے حالانکہ خالدہ نے عامر کو بظاہر نہ ہی دیکھا تھا اور نہ ہی عامر کے متعلق وہ زیادہ جانتی تھی، بس عامر کی باتوں کا بھروسہ کر کے وہ عامر کو اپنا دل دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔
عامر ایک سر فراہ لڑکا تھا جو انٹرنیٹ پر اپنی فرضی تصویریں ڈال کر لڑکیوں کو متاثر کرتا تا اور دوستی کر کے پھر ان سے پیسے ہڑپنے کا کام کرتا تھا۔ اس بات سے خالدہ بالکل بے خبر تھی۔ نیلم نے اس کام میں خالدہ کا بھرپور ساتھ نبھایا۔ جب بھی خالدہ ان سے ملنے کی بات کرتی تھی تو عامر نئے نئے بہانے بنا کر خالدہ کی اس خواہش کو ٹال دیتا تھا۔ ایک روز بات کرتے کرتے عامر نے اپنی ماں کی جھوٹی بیماری کے بہانے خالدہ سے چار ہزار روپے طلب کیے۔ خالد اپنے والد کو فون کرتی ہے کہ کالج میں چار ہزار روپے درکار ہیں اور محض دو دن میں ان پیسوں کو جمع کرانا بے حد ضروری ہے۔ عقیل بہت پریشان ہوا، اس کے پاس اب بیچنے کے لئے بھی کچھ نہیں تھا لیکن اپنی بیٹی کی ضرورتوں کے سامنے وہ مجبور اور لاچار تھا اور بیٹی کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرانا گویا اس کے لئے ایک خواب تھا۔ عقیل نے گاؤں کے مکھیا سے چار ہزار روپیے بیاز پر ادھار لیے اور خالدہ کے نام منی آرڈر ارسال کیا۔ پیسے ملتے ہی خالدہ نے وہ رقم عامر کو بھیجی۔ خالدہ یہ سب اپنا پیار حاصل کرنے کے لئے کر رہی تھی۔ وہ پیار جس کا کوئی مستقبل نہ تھا اور جو محض ایک جھوٹ پر مبنی تھا۔ عامر نے یہ پیسے اپنی عیاشی میں صرف کر دیے۔ عامر محض پیسوں کی لالچ میں خالدہ سے روز بات کرتا تھا اور اس کے دل میں خالدہ کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ خالدہ نے پھر عامرب سے ملنے کی درخواست کی جو کہ عامر نے مسترد کر دی۔ وہ خالدہ کو پیار کا جھوٹا بھروسہ دلاتا رہا اور اس نے حالات ٹھیک ہونے تک خالدہ سے صبر و تحمل سے کام لینے کو کہا۔ بیچاری خالدہ عامر کے چنگل میں بری طرح پھنس چکی تھی۔
سالانہ امتحانات مکمل ہوتے ہی کالج کی چھٹیاں پڑ گئی اور تمام طلبہ کو ایک مہینے کی چھٹی ملی۔ خالدہ بھی اپنے گھر چلی گئی۔ چند روز بعد ڈاک والا عقیل کے نام کا خط لے کر آتا ہے۔ خالدہ اپنی خالہ کے گھر گئ تھی۔ عقیل نے پڑوس میں رہنے والے احمد سے خط پڑھنے میں مدد لی۔ عقیل کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی جب احمد نے کہا کہ آپ کی بیٹی سالانہ امتحان میں ناکام ہوئی ہے۔ خالدہ سے ناکامی کی وجہ طلب کی گئی تو وہ خاموش رہی۔ اس کے پاس اپنی ناکامی کا کوئی جواب نہ تھا حالانکہ اس کو یہ بات معلوم تھی کہ اس کی ناکامی کے پیچھے ایک تو موبائل فون ہے اور دوسرا عامر۔۔۔
کالج کی چھٹیاں ختم ہو گئی اور خالدہ نے اپنے والد سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ آج کے بعد دل لگا کر اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دے گی۔ یہ وعدہ تو محض اپنے گھر سے نکلنے کا بہانہ تھا، کالج پہنچتے ہی خالدہ نے پھر سے روز مرہ کی طرح عامر سے باتوں کا سلسلہ جاری رکھا اور ملنے کے لیے اب خالدہ اپنی ضد پر اتر آئی۔ عامر نے، جو نہایت ہی شاطر تھا، پھر سے دو ہزار روپیوں کی مانگ کی اور وعدہ کیا کہ پیسے ملتے ہی وہ خالد کی ضد کو پورا کرے گا۔ خالدہ نے اپنی خالہ کی دی ہوئی سونے کی انگوٹھی بیچ کر عامر کے نام دو ہزار روپے کا منی آرڈر ارسال کیا اور پیسے ملتے ہی عامر نے خالدہ کو فون کر کے ملنے کی جگہ اور تاریخ بتا دی۔ یہ سنتے ہی خالدہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ بالآخر اتنے انتظار کے بعد اب وہ وقت قریب تھا جب خالدہ حقیقت میں عامر کو دیکھ سکتی تھی۔ خالد عامر سے بے انتہا محبت کرتی تھی اور اسکو پانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ خالدہ نے ابھی تک عامر کو محض تصویروں میں ہی دیکھا تھا اور عامر کو حقیقت میں دیکھنے کا خواب بہت جلد پورا ہونے والا تھا۔
خالدہ عامر کی حقیقی زندگی اور اس کے عادات سے بالکل بے خبر تھی۔ اس نے انٹرنیٹ اور عامر کی باتوں کا بھروسہ کیا تھا۔ خالدہ نے ایک اجنبی سے دوستی کی تھی اور اس اجنبی کے بارے میں خالدہ بہت کم جانتی تھی۔ خالدہ کی نظر میں عامر اس کے ساتھ سچی محبت کرتا تھا۔ خالدہ عامر سے ملنے کے لیے بے قرار تھی اور آخر وہ دن آ گیا جب خالدہ اپنے اجنبی دوست سے ملاقات کرنے جا رہی تھی۔ نیلم سے اجازت لے کر خالدہ عامر سے ملنے کی غرض سے کالج سے نکل گئی اور رکشا میں بیٹھ کے کالج سے تقریبا پندرہ میل دور ایک گاؤں میں برگد کے پیڑ کے نیچے عامر کا انتظار کرنے لگی۔ عامر کا فون نہیں لگ رہا تھا اور اسی بیچ دو لڑکے آئے اور خالدہ کو سلام کی۔ انجان لڑکوں کو دیکھ، خالدہ تھوڑی گھبرا گئی لیکن ان لڑکوں نے خالدہ سے کہا کہ ان کو عامر نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور عامر تھوڑی دور اس کا انتظار کر رہا ہے۔ عامر کا نام سنتے ہی خالدہ کی گھبراہٹ ختم ہوگی اور وہ ان دونوں انجان لڑکوں کے ہمراہ چل پڑی۔ راستے میں خالدہ نے پانی کی فرمائش کی اور پانی پیتے ہی خالدہ بے ہوش ہوگئی۔ ہوش میں آ کر خالدہ کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ اس نے اپنے آپ کو ایک خوفناک اور نہایت ہی بے ہودہ جگہ پایا۔ ایک ایسی جگہ جہاں لڑکیوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ محض چند پیسوں کی خاطر کمسن اور معصوم لڑکیوں کے جسم کی نمائش ہوتی تھی اور جہاں جسم فروشی کا بازار گرم تھا۔ خالدہ کو قید کر لیا گیا تھا جہاں سے نکلنا اب اس کے لئے ایک ناممکن سی بات تھی۔ جس عامر سے خالدہ انٹرنیٹ پر بات کیا کرتی تھی اس کا کہیں وجود نہ تھا۔” یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سب تصویریں فرضی ہوں اور اصلیت میں عامر نام کا کوئی لڑکا موجود ہی نہ ہو۔۔۔” خالدہ یہی سوچ رہی تھی کہ کوٹھے کی مالکن ریشما چائے لے کر آئی۔ خالدہ رو رہی تھی، اس کی آنکھوں سے خون کے آنسو جاری تھے اور اس نے ریشما کے سامنے عامر کا ذکر کیا۔ ریشما مسکرا کر بولی! ارے پگلی وہ کوئی عامر نہیں تھا۔ دراصل وہ شنکر ہے اور اس کا یہی کام ہے کہ انٹرنیٹ پر معصوم لڑکیوں کو اپنی فرضی تصویروں سے متاثر کرکے، ان کو اپنے جھوٹےپیار کے جال میں پھنسا کر، میرے پاس لانا ہے اور میں شنکر کو ہر ایک لڑکی کے عوض سات ہزار روپے فراہم کرتی ہوں۔ وہ یہ کام پچھلے پانچ سال سے کر رہا ہے اور اس کی ایک بہن نیلم ہے جو شہر کے کالج میں اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے اور سن لو اب تم ایک طوائف ہو اور آج سے تمہارا نام "رادھا” ہے۔ اپنی اگلی زندگی کو بھول جاؤ اور آج سے ایک نئی زندگی کی شروعات کرو کیونکہ ابھی تک اس کوٹھے میں جو بھی آیا ہے، یہاں سے واپس نہ گیا ہے اور نہ ہی جائے گا۔ یہ اس کوٹھے کی پرانی روایت ہے جس کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔۔
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ