شہر سرینگر میں گزشتہ کئی برسوں سے جس بے ہنگم انداز سے ناجائز تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اُس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والا مستقبل کیسا ہوگا؟ کئی برسوں سے غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ طوفانی رفتار کیساتھ جاری و ساری ہے جس کے نتیجے میں تعمیرات سے متعلق قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا ارتکاب ہورہا ہے۔شہر سرینگر اور مضافات میں موجود آبگاہیں اور زرعی اراضی اُس بے ہنگم ناجائز تعمیرات سے بہت حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ سیلاب اور بارشوں کے پانی کی نکاسی کیلئے فطری راستوں پر تعمیرات کھڑی کرنے سے نہ صرف ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوچکے ہیں بلکہ آبادی کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑچکی ہیں۔چند دہائیوں سے انتظامیہ کی جائب سے غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے جس طرح آنکھیں بند کی گئیں ، وہ ایک انتہائی افسوسناک معاملہ ہے کیوںکہ ان بستیوں کو کسی منصوبے کے بغیر ہی آباد کیا جارہا ہے جن میں نہ تو بنیادی شہری سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی اُنکے فروغ کی کوئی گنجائش!یہ ایک حقیقت ہے کہ شہر سرینگر کے بے ترتیب پھیلائو میں جہاں آبادی کا اضافہ ذمہ دار ہے وہیں اس کیلئے سرکاری مشینری سے لیکرزمین سے منسلک مافیا تک ایک یکساں سوچ متحرک ہے کیونکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران شہر سرینگر میں آبادیوں کے پھیلائو کے دوران منصوبہ جاتی ضرورتوں کو سرے سے ہی نظر انداز کیا گیا۔اس سلسلے میں حکومت نے پہلے ہی مخصوص منصوبہ مرتب کیا ہوا ہے جو ماسٹر پلان کے نام سے موسوم ہے تاہم اس میں موجود منصوبہ بندی محض کاغذی گھوڑوں کے مانند ہوکر رہ گئے ہیں۔سرینگر میونسپل کارپوریشن ہو یا ایس ڈی اے یا ایل سی ایم اے، سبھی متعلقہ ادارے کسی نہ کسی سطح پر اس بے ہنگم تعمیرات کیلئے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اس سارے عمل میں کشمیر کو دوہرے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔اس ساری صورتحال کیلئے اگر چہ عام لوگوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ساتھ ساتھ حکومت بھی ناقص منصوبہ عمل آوری کیلئے ذمہ دار ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے شہر سرینگر جس تیزی کیساتھ پھیلتا جارہا ہے اُس کے نتیجہ میں شہر کے مضافات میں واقع زرعی اراضی، آج رہائشی اور کنکریٹ کالونیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سال2014کے بھیانک سیلابی صورتحال نے شہر کے وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا جس کے نتیجے میں مہینوں شہری آبادی کو تباہ کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔اس طرح کے چلینج کا جوا ب تلاش کرنے کیلئے حکومتی اداروں کو منصوبہ بندی شروع کرنی چاہیے۔ فی الوقت اس بے ہنگم اور گنجلک چلینج کا سدباب کرنے کیلئے خصوصی پلان کی عمل آوری سرکار کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے کیوں کہ جس پیمانے پر تباہی نے اپنا روپ دھارن کیا ہوا ہے اُس کا صد فیصد ازالہ تو فی الحال ممکن نہیں تاہم مزید تباہی سے محفوظ رہنے کی خاطر اقدامات اُٹھائے جاسکتے ہیں۔سرینگر چونکہ سمارٹ شہروں کی فہرست میں شامل ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس بے ہنگم اور بے ترتیب تعمیرات پر روک لگانے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ابتداء کے طور پر زرعی زمینوں میں بے ہنگم تعمیراتی عمل پر قدغن لگادی جائے، خصوصیت کیساتھ شہر کے اندراور گردو نواح میں ڈل جھیل، ہوکرسر، گلی سر، براری نمبل، نارکرہ نمبل، بمنہ نمبل وغیرہ جیسی آبگاہوں میں ناجائز طور پر کھڑی کی جارہی تجاوزات کو منہدم کرکے مستقبل کو بچانے کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں۔نیز فلڈ چینلوں میں مستقبل میں اس طرح کی بے ہنگم تعمیرات کو روکنے کیلئے ٹھوس پالیسی مرتب کی جانی چاہیے اور جب بھی کوئی افسر یا اہلکار اس طرح کی کارروائی میں ملوث پایا جائے، تو اُس کیخلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے جو محکمہ میں دیگر افسران و اہلکاروں کیساتھ ساتھ عام لوگوں کیلئے نشانہ عبرت بن جائے۔ اس سلسلے میں جتنی جلد مؤثر پالیسی تشکیل دی جائیگی اُتنا ہی سودمند ثابت ہوگا۔