تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
کوچہ تصوف و عشق کے بھید بہت ہی نرالے ہیں یہاں پر عشق کچے دھاگے سے بھی جڑا ہو تو چٹانوں سی سختی ومضبوطی کا اظہار کر تا ہے آپ کے دماغ میں مرشد خانے یا مرشد کا نام ابھرے تو چہرے پر تبسم کا نور پھوٹ جاتا ہے مرشد کے شہر کا نام لیتے ہی شراب طہور کے جام چڑھ جاتے ہیں مرشد کا دیدار نہ ہو تو اُس کی گلی شہر کا چکر لگا کر ہی حسرت پوری کر لی جاتی ہے محبوب مرشد کے رنگ میں رنگے جانا اور پتہ بھی نہ چلنا یہ کوچہ عشق اور مرشد کے عشق میں ہو تا ہے جب سے میرے پاس حضرت امیر خسرو ؒ کی چادر مبارک آئی تھی میں اُس کے سحر میں گم دنیا و مافیا سے بے خبر تھا کہ کب اپنے مرشد حضرت بری سرکا ر ؒ کی قبر مبارک پر چڑھائوں اور اپنی عقیدت کا اظہار کروں آخر کار وہ مبار ک دن آگیا جب میں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ اپنے مرشد خانے حضرت عبداللطیف کاظمی مشہدی االمعروف بحرو بر امام بری سرکا ر ؒ اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھا مرشد خانہ آپ کے شہر میں نہ ہو بلکہ سینکڑوں کلو میٹر آپ سے دور ہو زندگی کے ہنگامہ خیز شب و روز اور موجود طلسمی مادیت پرستی کے دور میں آپ وقت نہ نکال پائیں یا پھر مہینوں گزر جائیں اور آپ کو موقع ملے یا مرشد کی طرف سے حکم بازیابی ہو تو اِس نشے سرور لطف کو وہی جان سکتے ہیں جو اِس ہجر سے گزرے ہوں میں بھی آج ساتویں آسمان پر محو پرواز تھا کہ میری پیاسی نگائیں اور ترستی سسکتی روح کو آج قرار آئے گا دیداور وصل کے دیپ آنکھوں میں جلانے میں مرشد خانے کی طرف جار ہا تھا ساتھ کہیں یہ بھی اطمینان اور خوشی تھی کہ میں اپنے مرشد کے لیے کوئی تحفہ لے کر جا رہا ہوں اور تحفہ تھی وہ چادر مبارک جو سر زمین ہند سے حضرت امیر خسرو ؒ کے مزار مبارک سے آئی تھی سارا راستہ سخی لجپال کی مہربانیوں اور عطائوں کا خیال کرتے گزر گیا پھر جب پارلیمنٹ ہائوس سے آگے ہماری گاڑی اُس راستے پر آئی جہاں سے مزار مبارک کا فلک بو رمینار نظر آتا ہے دل سینے کے پنجرے کو توڑ کر باہر آنے کو بے قرار تھا وہ دن یاد آگئے جب انہی دنوں میں سرکارؒ کے عرس مبارک پر دیوانے پروانے دنیاجہاں سے پیدل اِس سڑک پر شہنشاہ کو سلام عقیدت پیش کرنے آتے تھے عنبر کستوری سے مہکی انہی عطر بیز سوچوں میں غرق ہم مزار مبارک کے سامنے پہنچے تو جلیل اختر عباسی مہربان محبت سے لبریز مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کے لیے کھڑا تھا گرم جوشی سے بغل گیر ہو گیا میں شدت اور جلدی سے لجپال کو سلام کرنا اور تحفہ پیش کر نا چاہتا تھا ہم نے جلدی سے بہت سارے پھول پھولوں کے ہار اور پھولوں کی پتیاں سرکار کو پیش کرنے کے لیے لے لیں اور پھر عقیدت بھرے قدموں سے سرکار ؒ کے مزار مبارک کی طرف بڑھنے لگے ٹھنڈی ہوا ئیں چل رہی تھیں آسمان پر سرمئی بادلوں کے غول اِدھر اُدھر جھومتے گزر رہے تھے میری خوشی میں آوارہ بادلوں کے غول بھی شامل ہو گئے تھے سرکار کے مزار مبارک پر نظر پڑی تو انگ انگ خوشی سے جھومنے لگا پھڑکنے لگا جیسے کوئی گرم علاقوں کا پرندہ ہزاروں میلوں کی مسافت کے بعد کسی نخلستان میں ٹھنڈے میٹھے چشمے پر آبیٹھا ہو میں جھومتا ہوا دربار کی سیڑیوں سے چڑھا تو ایک دیوانہ مزار مبارک کی طرف ٹکٹکی باندھے عقیدت و احترام کا مجسمہ بنا بیٹھا تھا وہ کسی کشکول کی ماند سرکار کی بارگاہ میں حاضر تھا بے حس و حرکت اپنی عقیدت کے اظہار میں مگن تھا کہ ہم نے جا کر اُس کی محویت کو توڑا محبت و عقیدت کے خیالوں کا تبادلہ پھر ملاقات کا وعدہ اور ہم پھر شہنشاہ ؒ کی بارگاہ میں غلاموں کی طرف طوطی ہند ؒ کی چادر لیے چلنے لگے ہمیشہ کی طرح میں دل چاہ رہا تھا گلاب کی پتیاں بن کر چاروں طرف پھیل جائوں سرکار کے دیوانوں کے قدموں سے لپٹ لپٹ جائوں میری حالت اُس بچے کی سی تھی جو بہت دنوں کے بعد اپنی ماں کے پاس آیا تھا سرکار ؒ کی آغوش مہربان ماں کی طرح ہمیشہ کی طرح بانہیں پھیلائے ہمیں خوش آمدید کہہ رہی تھی نشے سرور میں دھت ہم سرکار ؒ کی قبر مبارک کے سامنے تھے شہنشاہ ہمیشہ کی طرح پھولوں کی چادر اوڑھے آرام فرما رہے تھے میں ہمیشہ کی طرح مسکرادیتا کہ پھول پھول اوڑھے آرام فرما رہے ہیں پھر ہم شیشے کے اند ر سرکار کی قبر مبارک پر آئے تو دل و دماغ خوشی عقیدت سے اچھلنے لگے سرکار کو طوطی ہند کی چادرمبارک اور پھول پیش کر کے میں سرا پادعا کشکول بن کر کھڑا ہو گیا میں اپنی پسندیدہ ترین جگہ پر سانسیں روکے کھڑا تھا سانسوں کی تیز آواز سے سرکار ؒ کے آرام میں مخل نہ ہو کوئی گستاخی نہ ہو لمحے صدیوں میں یا صدیاں لمحوں میں ڈھل رہے تھے اور میں غلام اپنے شہنشاہ ؒ کے حضور غلامی کی سند کا درخواست گزار کھڑا تھا سرکار ؒ نے ہمیشہ کی طرح خوب نوازا پھر میں باہر آکر شہنشاہ کے سامنے بیٹھ کر اپنی قسمت پر ناز اور سرکار کا شکریہ ادا کرنے لگا کافی دیر اُسی حالت میں مجسمہ عقیدت بنا بیٹھا رہا اُسی وقت دیوانوں کا گرو پ سرکار پر سلام اور نعرے لگانے لگے تو میں سرکار کے دیوانوں پروانوں کو یاد کرنے لگا شروع کے ایام میں جب عرس مبارک کے دنوں میں یہاں آیا کرتے تھے رنگ برنگے دیوانے سرکارؒ کو سلام عقیدت پیش کرنے آتے تھے میں دیوانوں کی یاد میں گم تھا کہ ایک دیوانے مغل کی روح ملکوتی کبوتر کی طرح میرے کندھے پر آبیٹی اور سرگوشی میں کہا بہت دنوں بعد آئے ہو تو مجھے جوانی کا چترالی شہزادہ مغل یاد آگیا جو چترال کا رہنے والا تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے نکلا کراچی گیا وہاں کسی صاحب نظر نے توجہ کی تو راہ حق کا مسافر بنا پھر گھر جانے کی بجائے اسلام آباد شہنشاہ بری سرکارؒ کے مزار پر آگیا جوان شہزادہ تھا چترالی حسن چڑھ کر بولتا لیکن مغل دنیا مافیا سے بے خبر سرکار ؒ کے عشق میں غرق ہو چکا تھا یہاں پر زندگی کے تیس سال گزارے دن رات فقیروں کی گدڑی میں لیٹا سرکار کے مزار کی طرف محویت سے دیکھتا رہتا سرکار ؒ سے محبت کا یہ عالم کے دن کے بعد رات کو پھول والوں کے پھٹے کے نیچے سو جاتا لیکن آنکھیں بری سرکارؒ کے مزار پر حالت جذب میں انگریزی فارسی بولنا شروع کر دیتا کیونکہ انٹر تک تعلیم حاصل کی تھی کوئی پیسے دیتا تو انکار کر دیتا چند لوگ مغل شہزادے کے روحانی مقام اور بری سرکارؒ سے تعلق سے واقف تھے چند سال پہلے جلیل عباسی نے جب مغل شہزادے کا ذکر کیا تو میں نے شہزادے کے مقام کا بتا یا کہ اُس کی خدمت کیا کرو پھر جلیل عباسی نے یہ حق خوب نبھایا دو سال پہلے شہزادہ ساٹھ سال سے اوپر کا ہو کر شدید بیمار ہوا ہسپتال جانے سے انکار کیا سرکار ؒ کے مزارکو دیکھتے دیکھتے جان قربان کر دی اور شہنشاہ بری سرکارؒ کے عشق میں پروانے کی طرح فنا ہو گیا جس نے زندگی کی ہر سانس مرشد کے عشق میںلی اور آخری سانس بھی مزار کو دیکھتے ہوئے لی ۔