شہر سرینگر کیساتھ ساتھ وادی کے دیگر اضلاع اور قصبوں میں فی الوقت محکمہ بجلی سمارٹ میٹروں کی تنصیب کا عمل تیزی کیساتھ آگے بڑھارہی ہے۔ سرینگر کے کئی علاقوں میں محکمہ بجلی نے سمارٹ میٹروں کی تنصیب کا کام مکمل کیا ہے جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں یہ مہم ابھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پائی ہے۔ تاہم دیکھنے والی بات یہ ہے کہ امسال کے گرمائی ایام میں وادی کشمیر کو جس بجلی بحران کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ شاید کشمیر کی تاریخ میں آج تک واقع نہیں ہوا ہوگا۔ گزشتہ ایک مہینے سے وادی کے شہر و گام میں بجلی بحران نے سنگین شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ یومیہ بنیادوں پر کم از کم چھ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے جبکہ موسمی تغیر کیساتھ ہی شہر کے بیسیوں علاقوں میں بجلی کئی کئی دنوں تک معطل رہتی ہے۔ عوامی حلقوں کے اندر رواں برس کے دوران شدید بجلی بحران پر سخت تشویش پائی جارہی ہے کیوں کہ اُن کا تشویش کرنا اور فکر مند رہنا بالکل جائز ہیں ۔ عوام گزشتہ دو دہائیوں سے لگاتار بجلی کی ماہانہ بلیں باقاعدگی کیساتھ ادا کرتے ہیں۔ میٹرڈ علاقوں کے صارفین میٹر کے حساب سے ماہانہ بلیں ادا کرتے ہیں جبکہ غیر میٹرڈ والے علاقوں کے صارفین فلیٹ ریٹ کے تحت پابندی کیساتھ بجلی فیس بنکوں کے ذریعہ ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر صارفین سے صرف بجلی فیس ہی وصول کیا جائے اور بجلی کے نام پر پورے مہینے دھوکہ اور بھونڈا مذاق کیا جائے تو اس کو ناانصافی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ ایک مہینہ سے وادی میں جو بجلی بحران جاری اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ شمالی گرڈ سے دستیاب ہونیوالی بجلی میں بقول اطلاعات تکنیکی خرابی واقع ہوئی ہے ، لیکن بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ تکنیکی خرابی تو محض ایک بہانہ ہے اصل میں گرما کے دنوں میں ملک بھر کی ریاستوں میں شدید گرمی سے راحت پانے کیلئے ان ریاستوں کو مزید بجلی سپلائی دینی پڑتی ہے جس کی آخر کار ضرب جموں کشمیر کی سپلائی پر ہی پڑتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر جموں کشمیر کے صارفین وقت پر اپنی بجلی بلیں ادا کرتے ہیں تو انہیں معقول بجلی سپلائی سے محروم کیوں رکھا جاتا ہے؟ ادھر عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب حکومت صارفین کو معقول بجلی سپلائی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو جموں کشمیر کے شہر و دیہات میں کس اعتبار سے سمارٹ میٹروں کی تنصیب کا عمل ہاتھ میں لیا گیا۔ المیہ کی بات یہ ہے کہ سمارٹ میٹروں کی تنصیب کے بعد ماہانہ بلوں میں آگے سے بے تحاشہ اضافہ ہونے کا قوی امکان ہے ۔ ادھرجموں کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بے روزگار کی شرح میں ناقابل یقین اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد گھروں میںبیٹھی ہوئی ہے ۔ ان میں ایک خاص تعداد اب ذہنی پریشانی کی شکار بھی ہوچکی ہے۔ ایک طرف سرکاری سطح پر روزگار کے وسائل بہت ہی کم ہوچکے ہیں جبکہ دوسری طرف نجی شعبہ بھی گزشتہ کئی برسوں سے تباہی کے کگار پر ہے۔ ایسے میں یہ پورا بوجھ عوام کے سر پر آن پڑا ہے جو انتہائی پریشان و نالاں دکھائی دے رہا ہے۔ سمارٹ میٹروں کی تنصیب سے متعلق سرکار کو نظر ثانی کرنے کیساتھ ساتھ سماجی میں رہ رہے مختلف طبقے کے لوگوں کی کیٹہ گرائیزیشن کرنی چاہیے تاکہ کسی کیساتھ ناانصافی نہ ہو۔ لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت والی سرکار نے جہاں گزشتہ کئی برسوں میں عوام دوست اقدامات اُٹھائے اور لوگوں کا یقین جیتنے میں کامیاب ہوئی، کو چاہیے کہ وہ عوام کی مجموعی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھتے ہوئے دکھی دلوں کو مرہم لگانے کا کام کرے۔