وادی کشمیر میں ان دنوں سالانہ امرناتھ یاترا شدومد کیساتھ جاری ہے۔ یکم جولائی سے شروع ہوچکی سالانہ امرناتھ یاترا دو مہینے تک جاری رہے گی اور اگست کے آخر تک ملک بھر سے آنیوالے یاتری پوتر گپھا کے درشن کریں گے۔ امسال یاترا کو احسن طریقے پر منعقد کرنے کیلئے جموں کشمیر کی انتظامیہ نے مثالی انتظامات عمل میں لائے ہیں،جبکہ وادی کے مسلمانوں کی جانب سے بھی غیر معمولی اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔ یاتراشروع ہونے سے قبل ہی مقامی مسلمانوں نے سماجی رابطہ گاہ سائٹوں پر اپنے پیغامات جاری کئے جن میں یاترا کا ارادہ کرنیوالے لوگوں کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ دیکھا گیا کہ وادی کشمیر جہاں مسلمانوں کی آبادی پہلے سے ہی یاترا کے انعقاد میں اپنا بھر پور تعاون دیتے تھے، تاہم اس بار مختلف وادی کے اکثریتی طبقے کی جانب سے غیر معمولی اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔ ان حوصلہ افزا اقدامات کے نتیجہ میں نہ صرف یاترا کیلئے وارد ہونے والے یاتریوں کے جذبے نے نئی جہت اختیار کی بلکہ ملک بھر کیساتھ ساتھ دنیا بھر میں کشمیر کی مہمان نوازی، دوستی، بھائی چارگی، ہمدردری اور امن پر مبنی پیغامات عام ہوگئے۔ مقامی آبادی کی جانب سے یاتریوں کا کھلے دل استقبال کرنے سے کشمیری روایات کا دنیا بھر میں پھر سے چرچا کیا جانے لگا۔ یاتراکے پہلے روز ہی جوں ہی جموں کے بھگوتی نگر بیس کیمپ سے یاتریوں کا پہلا جتھا کشمیر کی طرف روانہ ہوا تو یہاں کھنہ بل اننت ناگ میں مرد و خواتین مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یاتریوں کے استقبال کیلئے تیار بیٹھی تھی۔ جونہی یاتریوں کے قافلہ کا یہاں سے گذر ہوا تو لوگوں نے اُن پر پھول مالائیاں نچھاور کرنے کیساتھ ساتھ مٹھائیوں سے اُن کا والہانہ استقبال کیا۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ مسلمانوں پر مشتمل جموں کشمیر کا اکثریتی طبقہ ہمیشہ سے ہی یاترا کے احسن انعقاد کیلئے کوشاں رہتا تھا۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے جائیں تو یہ بات واشگاف ہوجاتی ہے کہ ماضی میں جب وسائل محدود تھے، تب مقامی مسلمان ہی بیرون ریاست سے آنیوالے یاتریوں کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ ماضی میں ان یاتریوں کو مقامی مسلمان اپنے گھروں میں پناہ دیتے تھے اور گپھا کے درشن کیلئے روانگی سے قبل انہیں جوتے، گرم ملبوسات، اور دیگر غذائی اجناس فراہم کرتے تھے۔اس نوعیت کی مہمان نوازی رضاکارانہ ہوا کرتی تھی جو اس بات کی عکاسی کرتی تھی کہ کشمیری مسلمان مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارگی کے ماحول پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی میں گزشتہ تین دہائیوں پر محیط پرآشوب دور میں بھی یاترا جاری و ساری رہی۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ کشمیری عوام دنیا بھر میں مہمان نوازی کیلئے مثال کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ یاتری ہو یا سیاح یا اور کسی غرض سے کشمیر وارد ہونیوالا شخص کشمیریوں کی مہمان نوازی کا کھلے دل سے معترف ہے۔ گزشتہ ہفتہ سے شروع ہوچکی سالانہ امرناتھ یاترا کیلئے مقامی آبادی نے وادی کے کئی مقامات پر رضاکارانہ طور پر اسٹال قائم کئے ہیں جہاں وہ یاتریوں کی مہمان نوازی انجام دینے میں مشغول ہیں۔ اننت ناگ اور گاندربل سے جانیوالے دو راستوں پر مقامی مسلمانوں کی طرف سے کھانے پینے کے اسٹال قائم کئے گئے ہیں جہاں وہ انسانی رشتے کے اعتبار سے ان یاتریوں کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ کشمیر بیرونی دنیا میں ایک منفرد مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقام محض کاغذی نہیں بلکہ عملی ہے جس کا مشاہدہ دنیا بھر کے لوگوں نے ازخود کشمیر آکر کیا ہے۔ مغرب کے کئی مؤرخین نے اپنی کتب میں کشمیریوں کی مہمان نوازی کا حوالہ دیا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کشمیر امن، بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی پر کتنا یقین رکھتے ہیں۔ اُمید ہے کہ امرناتھ یاترا پر آنیوالے یاتری بھی امن، بھائی چارگی اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام ساتھ لیکر دنیا بھر میں کشمیر اور کشمیریوں کی حقیقی تصویر پیش کریں گے۔