شہر سرینگر میں آئے دن ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں جس کی وجہ سے مسافروں کا کافی سارا وقت گاڑیوں میں ضائع ہوجاتا ہے۔ سرینگر ضلع میں خال ہی کوئی ایسا علاقہ ہوگا جہاں ٹریفک کے لمبے لمبے جام نظر نہ آتے ہوں۔ گزشتہ دو دہائیوں کی بات کی جائے تو سرینگر کیساتھ ساتھ وادی کے دیگر حصوں میں گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد پہلے سے موجود فہرست میں جمع ہوگئیں جس کی وجہ سے ہر سو ٹریفک مسدود دکھائی دے رہا ہے۔ وادی میں موجود گاڑیوں کے بیسیوں شوروم قائم ہوچکے ہیں، جبکہ گزشتہ دس برسوں کے دوران اس میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہر شوروم سے روزانہ کی بنیاد پر تین درجن سے زائد گاڑیاں نکلتی ہے اور یوں سڑکوں پر موجود گاڑیوں کی وسیع تعداد میںہر گزرتے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس پر مزید طرہ یہ کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مقررہ وقت پار کرکے کالعدم ہونیوالی تھیں وہ چار و ناچار مفادات کے پیش نظر سڑکوں پر رواں دواں دکھائی دے رہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں جس کا نقصان ہے وہ بس عام آدمی ہے جس کا کافی سارا وقت ٹریفک کی لمبی لمبی قطاروں میں پھنس کر ضائع ہوجاتا ہے۔ سرینگر شہر کی ہی اگر بات کی جائے تو یہاں لاکھوں کی تعداد میں گاڑیوں دن پر سڑکوں پر رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔ شہر کا وسیع حصہ دن بھر ٹریفک جاموں سے بھرا پڑا رہتا ہے۔ مزید برآں گزشتہ دو برسوں کے دوران شہر سرینگر میں جو تعمیراتی و تجدیدی کام انجام دئے گئے اور جن کی بدولت سڑکوں کا ایک وسیع حصہ مختلف اُمور کیلئے مختص رکھا گیا، کہ وجہ سے بھی شہر میں آئے روز ٹریفک کے لمبے لمبے جام دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اگرچہ حکام بالا اس تجدیدی عمل کو شہر کی خوبصورتی کیلئے ناگزیر قرار دے رہے ہیں تاہم حقیقت میں اس سب کا خمیازہ عام آدمی پر ہی پڑتا ہے جس کا بیشتر وقت ٹریفک جام میں ضائع ہوجاتا ہے۔ عوامی شکایات کے بعد اگر چہ حکام نے شہر میں کئی مقامات پر سڑکوں پر ڈائیورژن قائم کئے ہیں لیکن وہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے نامکمل ثا بت ہورہے ہیں۔اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی کا پیمانہ اگر ناپنا ہو تو اُس ملک کی سڑکوں کو دیکھا جائے، جتنی سڑکیں کشادہ ہوں، چلنے کے لائق ہو اُسی قدر ملک کی ترقی ظاہر ہوتی ہے۔ مغربی اقوام میں سڑکوں کی بہتر طور پر تعمیر کیلئے نہ صرف روپے خرچ کئے جاتے ہیں بلکہ وہاں سڑکوں کی تعمیر سے قبل تنکیکی ماہرین سے گہرائی کیساتھ صلاح و مشورہ لیا جاتا ہے تاکہ سڑکوں کی زندگی کافی طویل ثابت ہو، لیکن ہمارے یہاں شاید ہی اس پر غور کیا جارہا ہے۔ اگرچہ سرکار ہر سال سڑکوں کی تجدید کاری پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن زمینی سطح پر اس کام میں ملوث ایجنسیاں تکنیکی امور کو جگہ نہیں دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں کی سڑکوں پر چند ماہ گزرنے کے بعد ہی بڑے بڑے کھڈ قائم ہوتے ہیں جو بارشوں اور برفباری کے موسم میں ندیوں اور تالابوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں ٹریفک کا کافی سارا اثر پڑتا ہے اور مسافروں کا کافی سارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہمارے یہاں بھی متعلقہ ایجنسیاں تکنیکی اُمور پر توجہ دیتی اور قوم کے اجتماعی سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچاتی۔ اُمید ہے کہ آنیوالے وقت میں سرکار اس معاملے پر خصوصی توجہ دے گی اور متعلقہ ایجنسیوں پر بھی کام کو تکنیکی طور پر بہتر بنانے پر زور ڈالے گی، کیوں کہ اسی میں قومی بھلائی مخفی ہے اورقو م کی ترقی بھی عیاں ہے۔