صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 75 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم کو خطاب کرتے ہوئے آج کہا ’’ 75ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر میں آپ سب کودلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں کہ نامساعد حالات کے باوجود ہم نے کتنا طویل سفر طے کیا ہے، تو میرا دل فخر سے بھر جاتا ہے۔ ہماری جمہوریت کا75واں سال کئی لحاظ سے ملک کے سفر میں ایک تاریخی سنگ میل ہے۔ یہ جشن منانے کا ایک خاص موقع ہے،جس طرح ہم نے آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے دوران اپنے ملک کی بے مثال عظمت اور متنوع ثقافت کا بھی جشن منایا تھا۔
کل کے دن ہم آئین کے آغاز کا جشن منائیں گے۔ آئین کی تمہید ’’ہم، بھارت کے لوگ‘‘ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ یہ الفاظ ہمارے آئین کے بنیادی نظریے یعنی جمہوریت کو واضح کرتے ہیں۔ ہندوستان کا جمہوری نظام، جمہوریت کے مغربی تصور سےکہیں زیادہ قدیم ہے۔ اسی لیے ہندوستان کو ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔
ایک طویل اور مشکل جدوجہد کے بعد ہمارا ملک 15 اگست 1947 کو غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوا۔ لیکن اس وقت بھی ملک میں اچھی حکمرانی اوراہل وطن کی فطری صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے مناسب بنیادی اصولوں اور طریقہ کار کی تشکیل کا کام جاری تھا۔ دستور ساز اسمبلی نے اچھی حکمرانی کے تمام پہلوؤں پر تقریباً تین سال تک تفصیلی غوروخوض کیااور ہمارے ملک کے عظیم بنیادی ضابطوں کی کتاب یعنی آئین ہند کا مسودہ تیار کیا۔آج کے دن ہم تمام اہل وطن اُن دور اندیش عوامی رہنماؤں اور عہدیداروں کو یاد کرتے ہوئے ان کے ممنون ہیں جنہوں نے ہمارے عظیم الشان اور مؤثر آئین کی تشکیل میں انمول اور بیش بہا تعاون پیش کیا۔
ہمارا ملک اپنی آزادی کے سو سال کی طرف بڑھتے ہوئے امرت کال کے ابتدائی دور سے گزررہا ہے۔ یہ ایک انقلابی تبدیلی کا دور ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو نئی اونچائیوں تک لے جانے کا سنہرا موقع حاصل ہوا ہے۔ اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ہرشہری کا تعاون نہایت اہم ہوگا۔ اس کے لیے میں ملک کے سبھی شہریوں سےآئین میں درج اپنے تمام بنیادی فرائض پر عمل کرنے کی درخواست کروں گی۔یہ کام آزادی کے سو سال مکمل ہونے تک ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی سمت میں ہرشہری کی ذمہ داری ہے۔اس سلسلے میں مجھے مہاتما گاندھی کی یاد آتی ہے۔ باپو نے ٹھیک ہی کہا تھا، جس نے صرف اپنے اختیارات پر نظر رکھی، ایسی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ صرف وہی قوم ترقی کرسکتی ہے جس نے اپنی ذمہ داریوں کو مذہبی فريضہ سمجھ کر انجام دیا ہو۔‘‘
میرے پیارے ہم وطنوں!
’’ یوم جمہوریہ اپنے بنیادی اقدار اور اپنے اصولوں کویادکرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ جب ہم ان میں سے کسی ایک بنیادی اصول پر غورکرتے ہیں تو فطری طورپر دیگر تمام اصولوں کی جانب بھی ہماری توجہ جاتی ہے۔ثقافت، نظریات اور روایات کا تنوع ہماری جمہوریت میں ہی مضمر ہیں۔ہمارے تنوع کا یہ تہوار مساوات پر مبنی ہے، جسے نظام انصاف کے ذریعے محفوظ رکھاجاتا ہے۔یہ سب آزادی کے ماحول میں ہی ممکن ہوپاتا ہے۔ان اقدار اور اصولوں کی جامعیت ہماری ہندوستانی تہذیب کی بنیاد ہے۔ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی دانشمندانہ قیادت میں پوشیدہ زندگی کے ان بنیادی اصولوں میں رچی بسی آئین کی روح نے ہرطرح کی تفریق کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سماجی انصاف کے راستے پر ثابت قدم رکھا ہے۔‘‘
’’میں اس بات کا تذکرہ کرناچاہوں گی کہ سماجی انصاف کے لیے مسلسل جہدوجہد کرنے والے کرپوری ٹھاکر جی کے صدسالہ یوم پیدائش کی تقریب کل ہی ختم ہوئی ہے۔کرپوری جی پسماندہ طبقوں کے عظیم حامیوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی ان کی فلاح وبہبود کے لیے وقف کردی تھی۔ان کی پوری زندگی لوگوں کے لیے ایک پیغام تھی۔اپنے بیش بہا تعاون سے عوام کی زندگی کو خوش حال بنانے کے لیے میں کرپوری جی کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں۔
اپنی جمہوریت کے بنیادی جذبے سے متحد ہوکر ہم 140کروڑ سے زیادہ ہندوستانی شہری ایک کنبے کی شکل میں رہتے ہیں۔دنیا کے سب سے بڑے اس کنبے کے لیےبقائے باہم کا جذبہ،اپنی جغرافیائی حالات کے ذریعےتھوپا گیا کوئی بوجھ نہیں ہے، بلکہ اجتماعی طورپر خوش رہنے کا ایک ذریعہ ہے، جو ہمارے یوم جمہوریہ کے تہوار سے ظاہر ہوتا ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں ہم سب نے اجودھیا میں پربھو شری رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کیے گئے عالی شان مندر میں پران پرتشٹھا کی تاریخی تقریب کامشاہدہ کیا۔مستقبل میں جب اس واقعے کو وسیع تر تناظر میں دیکھاجائے گا تب مؤرخ ہندوستان کی ثقافتی وراثت کی تلاش کرتے ہوئے اس واقعے کا ذکر ایک عہدساز تقریب کے طورپر کرے گا۔مناسب عدالتی کارروائیوں اور ملک کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اب یہ ایک خوبصورت مندر کی شکل میں جلوہ افروز ہے۔یہ مندر نہ صرف ہرفرد کی عقیدت کا اظہا رہے بلکہ عدلیہ پر اپنے ملک کےشہریوں کے اٹوٹ یقین کا بین ثبوت بھی ہے۔‘‘
پیارے ہم وطنوں!
’’ہمارے قومی تہوار ایسے اہم مواقع ہوتے ہیں جن میں ہم اپنی ماضی پر بھی نظرڈالتے ہیں اور مستقبل کی جانب بھی نگاہ رکھتے ہیں۔گزشتہ یوم جمہوریہ کے بعدکے ایک سال پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ہندوستان کی صدارت میں دہلی میں جی 20 سربراہ کانفرنس کا کامیاب انعقاد ایک بے مثال حصولیابی تھی۔جی 20 سے متعلق پروگراموں میں عوام کی شراکت داری خصوصی طورپر قابل ذکر ہے۔ان پروگراموں میں خیالات اورمشوروں کی ترسیل اوپر سے نیچے کی جانب نہیں بلکہ نیچےسے اوپر کی جانب تھی۔اس شاندار تقریب سے ہمیں یہ سبق بھی ملا ہے کہ عوام کو بھی اس انتہائی گہرےاور بین الاقوامی اہمیت کے معاملے میں حصہ دار بنایاجاسکتا ہے،جس کا اثر ان کے مستقبل پر بھی پڑتا ہے۔جی 20 سربراہ کانفرنس سے گلوبل ساؤتھ کی آوازکےطورپرہندوستان کی اہمیت اورزیادہ بڑھی ہے، جس سے بین الاقوامی مذاکرات کے عمل میں ایک نئےپہلوکااضافہ ہوا۔
جب پارلیمنٹ نے خواتین کے ریزرویشن سےمتعلق تاریخی بل منظور کیا تو اس سے ہمارا ملک مردوخواتین کے درمیان مساوات کے اصول پر آگے بڑھا۔میراخیال ہے کہ ’ناری شکتی وندن ادھینیئم‘ خواتین کو بااختیار بنانے کا ایک انقلابی وسیلہ ثابت ہوگا۔اس سے ہماری حکمرانی کے عمل کو بہتر بنانے میں بھی بہت مدد ملے گی۔جب اجتماعی اہمیت کے امور میں خواتین کی حصہ داری بڑھے گی،تب ہماری انتظامی ترجیحات اورعوام کی ضروریات کے درمیان تال میل بھی بہتر ہوگا۔
اسی دوران ہندوستان چاند کے جنوبی پول کے علاقے میں اترنےوالا پہلا ملک بنا۔ چندریان -3کے بعد اسرو نے ایک اور شمسی مشن بھی شروع کیا ہے۔ حال ہی میں آدتیہ ایل -1 کو کامیابی کےساتھ ہیلو آربٹ میں پہنچایا گیا ہے۔ہندوستان نے اپنے پہلے ایکسرے پولاری میٹر سیٹلائٹ جسے ایکسپو سیٹ بھی کہاجاتا ہے ،بھیجے جانے کے ساتھ نئے سال کی شروعات کی ہے۔یہ سیارچہ خلا کے بلیک ہول کے رازوں کی جانکاری حاصل کرے گا۔سال 2024 کے دوران دیگر متعددخلائی مہم کا منصوبہ تیارکیاگیا ہے۔یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ بھارت کے خلائی سفر میں کئی اور اہم کامیابیاں حاصل ہونے والی ہیں ۔ ہمارے پہلے انسان بردار خلائی پروگرام گگن یان مشن کی تیاری منظم طریقے سے جاری ہے۔ ہمیں اپنے سائنسدانوں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین پر ہمیشہ فخر رہا ہے، لیکن اب یہ سائنس داں پہلے سے کہیں زیادہ بڑے اہداف حاصل کررہے ہیں اور اس کے مطابق نتائج بھی حاصل کررہے ہیں۔ہندوستان کے خلائی پروگرام کا مقصد پوری انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے رول کو اور زیادہ وسعت اور گہرائی فراہم کرنا ہے۔اسرو کے پروگرام کے تئیں ملک کے شہریوں میں جس طرح کا جوش وخروش نظرآرہا ہےاس سے کئی نئی امیدیں بھی بندھ رہی ہیں۔خلائی سائنس کے شعبے میں نئی کامیابیوں سے نوجوان نسل کے تصور کو پر لگ گئے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں اس سے بڑے پیمانے پر سائنس کے تئیں رجحان بڑھے گا اور ان میں سائنٹفک نظریہ فروغ پائے گا۔خلائی سائنس کی ان کامیابیوں سے نوجوانوں اور خصوصا ًنوجوان لڑکیوں کو یہ ترغیب ملے گی کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو میدانِ عمل بنائیں۔‘‘
میرے پیارے ہم وطنوں!
’’آج کا ہندوستان مکمل اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔مضبوط اور صحت مند معیشت اس اعتمادکی وجہ بھی ہے اور نتیجہ بھی۔حالیہ برسوں میں ہماری مجموعی گھریلو پیداوار میں اضافے کی شرح تمام اہم معیشتوں میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ٹھوس اندازے کی بنیاد پر ہمیں پورایقین ہے کہ یہ غیرمعمولی کارکردگی سال 2024 اور اس کے بعد بھی جاری رہے گی۔میں اس بات کا تذکرہ خصوصی طورپر کرنا چاہتی ہوں کہ جس دوررس منصوبے کی بنیاد پر ہماری معیشت کو رفتار ملی ہے اسی کے تحت ترقی کے سفر کو ہرنظریے سے شمولیت پر مبنی بنانے کے لیے سوچے سمجھے عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں کو بھی آگے بڑھایاجارہا ہے۔وبا کے دور میں سماج کے کمزورطبقوں کو مفت خوراک دستیاب کرانے کے لیے شروع کیے گئے منصوبوں کا دائرہ سرکار نے اور وسیع کردیا تھا۔بعد میں کمزور طبقوں کی آبادی کو بحران سے نکلنے میں مدد دینے کے لیے ان فلاحی منصوبوں کو جاری رکھاگیا۔اس پہل کو اور زیادہ وسعت دیتے ہوئے سرکار نے 81کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اگلے پانچ سال تک مفت اناج فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ممکنہ طورپر تاریخ میں عوامی فلاح وبہبود کا یہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔
ساتھ ہی سبھی شہریوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے بھی معینہ وقت کے متعدد منصوبوں پر بھی عمل کیاجارہا ہے۔گھر میں محفوظ طریقے سے وافر مقدار میں پینے کے پانی کی دستیابی سے اپنا محفوط گھر ہونے تک کا خوبصورت احساس، ہماری کم ازکم بنیادی ضرورتیں ہیں نہ کہ خاص سہولتیں۔ یہ معاملے کسی بھی سیاسی یا معاشی تصور سے پرے ہے، اور انہیں صرف انسانیت کے نظریے سے ہی دیکھاجانا چاہیے۔سرکار نے عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں کو صرف وسعت اور ترقی ہی نہیں دی ہے بلکہ عوامی فلاح وبہبود کے نظریے کو نئے معنی بھی دیے ہیں۔ہم سبھی اس دن فخر محسوس کریں گے جب بھارت کچھ ایسے ممالک میں شامل ہوجائے گا جہاں شاید ہی کوئی بے گھر ہو۔شمولیت پر مبنی فلاح وبہبود کی اسی سوچ کے ساتھ قومی تعلیمی پالیسی میں ڈیجیٹل تقسیم کو روکنے اور محروم طبقوں کے طلبا کے مفاد میں مساوات پر مبنی تعلیمی نظام کی تیاری کو اولین ترجیح دی جارہی ہے۔آیوشمان بھارت یوجناکے وسیع تر سیکورٹی کَور کے تحت تمام مستفیدین کو شامل کرنے کا ہدف مقررکیاگیاہے۔اس سیکورٹی کور سے غریب اور کمزور طبقوں کے لوگوںمیں خود اعتمادی آئی ہے۔
ہمارے کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پرہندوستان کا سرفخر سے اونچا کیا ہے۔گزشتہ سال منعقد ہ ایشیائی کھیلوںمیں ہم نے 107تمغوں کے نئے ریکارڈ کے ساتھ تاریخ رقم کی اور ایشیائی پیراکھیلوں میں ہم نے 111تمغے جیتے۔یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ خواتین ،تمغوں کی فہرست میں مؤ ثرتعاون کررہی ہیں۔ہمارے سرکردہ کھلاڑیوں کی کامیابی سے بچوں کو مختلف کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب ملی ہے، جس سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔مجھے یقین ہے کہ نئے اعتماد کے ساتھ ہمارے کھلاڑی آئندہ پیرس اولمپک میں اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔‘‘
پیارے ہم وطنوں!
’’حالیہ دنوں میں دنیا میں مختلف جگہوں پر جنگیں ہورہی ہیں ۔دنیا کے بہت سے حصے اس وقت تشدد سے متاثر ہیں۔جب دومخالف فریقوں میں ہرایک کا یہی خیال ہو کہ صرف اسی کی بات صحیح ہے اور دوسرے کی غلط تو ایسے حالات میں ایسے دلائل کی بنیاد پر ہی آگے بڑھاجاناچاہیے جس سے معاملے کو حل کیاجاسکے۔بدقسمتی سے دلائل کی جگہ آپسی اندیشوں اور بدگمانیوں کو بڑھاوا ملا ہے، جس کے سبب مسلسل خون خرابہ ہورہا ہے۔بڑے پیمانے پر انسانیت کو مجروح کرنے والے واقعات سامنے آرہے ہیں اور ہم سب اس انسانی درد سے کراہ رہے ہیں۔ایسے حالات میں ہمیں بھگوان بدھ کے ان جامع الفاظ کی یاد آتی ہے۔
نہ ہی وے رین وے رانی، سم من تیدھ ، کوداچنم
اوے رین ، چ سم منتی، ایس دھم مو سنن تنو
اس کے معنی ہیں : یہاں کبھی بھی دشمنی کو دشمنی کے ذریعہ ختم نہیں کیاجاتا ہے، بلکہ غیردشمنی کے ذریعہ سے ختم کیاجاتا ہے ، یہی ابدی اصول ہے۔
وردھمان مہاویر اورسمراٹ اشوک سے بابائے قوم مہاتماگاندھی تک بھارت نے ہمیشہ یہ مثال پیش کی ہے کہ عدم تشدد صرف ایک آدرش نہیں جسے حاصل کرنا مشکل ہو بلکہ یہ ایک واضح امکان ہے۔یہی نہیں بلکہ کئی لوگوں کے لیے یہ زندہ جاوید حقیقت ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ جنگ زدہ علاقوں میں تنازعات کو سلجھانے اور امن قائم کرنے کے راستے تلاش کر لئے جائیں گے ۔
عالمی ماحولیاتی بحران سے باہر نکلنے میں بھی بھارت کا قدیم علم عالمی برادری کی رہنمائی کرسکتا ہے۔بھارت کو توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو فروغ دینے میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اور گلوبل کلائمٹ ایکشن کی قیادت کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ بھارت نے ماحولیات کے تئیں محتاط طرز زندگی اپنانے کے لیے لائف موومنٹ شروع کیا ہے۔ ہمارے ملک میں آب وہوا میں تبدیلی کے مسئلے سےنمٹنے میں انفرادی طرززندگی میں تبدیلی لانے کو ترجیح دی جارہی ہےاور عالمی برادری اس کی ستائش بھی کررہی ہے۔ہرجگہ کے لوگ اپنی طرززندگی کو فطرت کے مطابق ڈھال کر اپنا تعاون دے سکتے ہیں اور انہیں ایسا کرنا ہی چاہیے۔اس سے نہ صرف آئندہ نسلوں کے لیے زمین کو محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی بلکہ معیار زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔‘‘
پیارے ہم وطنوں!
’’ہماری آزادی کے سو سال مکمل ہونے تک کے امرت کال کے وقفے کے دوران غیرمعمولی تکنیکی تبدیلیاں بھی ہونے جارہی ہے۔مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ جیسی تکنیکی تبدیلی غیرمعمولی رفتار کے ساتھ سرخیوں سے باہر آکر ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔کئی شعبوں میں مستقبل سے وابستہ اندیشے ہمیں فکر میں مبتلا کرتے ہیں لیکن ان میں متعدد حوصلہ افزا مواقع بھی نظر آتے ہیں ،خاص طورپر نوجوانوں کے لیے۔ ہمارے نوجوان موجودہ حدود سے آگے جاکر نئے امکانات تلاش کررہے ہیں۔ ان کے راستےکی رکاوٹوں کو دور کرنے اور انہیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے استعمال کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ہمیں ہرممکن کوشش کرنی ہے۔ ہماری نوجوان نسل چاہتی ہے کہ سبھی کو برابر کے مواقع میسر ہوں۔وہ برابری سے منسلک پرانے الفاظ کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتے بلکہ برابری کے ہمارے گراں قدر آدرش کی حقیقی شکل دیکھنا چاہتے ہیں۔
دراصل ہمارے نوجوانوں کی خود اعتماد ی کی بنیاد پر ہی مستقبل کےہندوستان کی تعمیر ہورہی ہے۔ نوجوانوں کے ذہن ومزاج کو سنوارنے کا کام ہمارے اساتذہ کرتے ہیں جوصحیح معنوں میں ملک کامستقبل بناتے ہیں۔میں اپنے ان کسانوں اور مزدور بھائی بہنوں کا شکریہ اداکرنا چاہتی ہوں جو خاموشی سے محنت کرتے ہیں اور ملک کےمستقبل کو بہتر بنانے میں بیش قیمت تعاون دیتے ہیں۔یوم جمہوریہ کے مبارک موقع کی ماقبل شام سبھی ہم وطنوں ،ہماری مسلح افواج ،پولیس اور نیم فوجی دستوں کا بھی احسان مندی کے ساتھ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ان کی بہادری اور مستعدی کے بغیر ہم اتنی مؤثر کامیابیاں حاصل نہیں کرسکتے تھے، جو ہم نےحاصل کرلی ہیں۔
اپنی بات ختم کرنے سے پہلے میں عدلیہ اور سول سروسز کے اراکین کو بھی مبارکباد دینا چاہتی ہوں۔ بیرون ملک تعینات ہندوستانی مشنوں کے افسران اور غیرمقیم ہندوستانی برادری کو میں یوم جمہوریہ کی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔آئیے ہم سب حتی الامکان قوم اور ہم وطنوں کی خدمت کے لیے خود کووقف کرنے کا عہد کریں۔اس عظیم الشان عزم کی تکمیل کی کوشش کے لیے آپ سبھی کو میری دلی مبارکباد۔
‘ہندوستان کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے..’،
: ہندوستان کا 75 واں یوم جمہوریہ 26 جنوری 2024 کو منایا جائے گا۔ صدر دروپدی مرمو نے آج یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم سے خطاب کیا۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں حکومت کے ترقیاتی منصوبوں اور مستقبل کی پالیسیوں کے بارے میں بتایا۔ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح اور مرکزی حکومت کی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا- ‘ہندوستان کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے، یہ یوم جمہوریہ ہمارے حقوق کو یاد کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔’
صدر دروپدی مرمو نے کہا کہ میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں کہ نامساعد حالات کے باوجود ہم نے بہت طویل سفر طے کیا ہے۔ یہ یوم جمہوریہ کئی لحاظ سے بہت خاص ہے۔ یہ ہمارے لیے جشن منانے کا موقع ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ جس طرح ہم نے یوم آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران ملک کی بے مثال عظمت کا جشن منایا تھا۔ اب کل ہم آئین کے آغاز کا جشن منائیں گے۔ ہمارے آئین کی تمہید ہم ہندوستان کے عوام سے شروع ہوتی ہے۔ یہ الفاظ جمہوریت کے تصور کو واضح کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہندوستان کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایک طویل اور مشکل جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947 کو ملک کو آزادی ملی۔ ہمارا ملک بیرونی تسلط سے آزاد ہوا۔ ہمارا ملک آزادی کی صدی کی طرف بڑھ رہا ہے اور امرت کال کے ابتدائی دور سے گزر رہا ہے۔ یہ عہد کی تبدیلی کا دور ہے۔”
صدر نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا موقع ملا ہے۔ ہمارے اہداف کے حصول کے لیے ہر شہری کا تعاون اہم ہوگا۔ اس لیے میں تمام اہل وطن سے درخواست کروں گا کہ وہ آئین کے بنیادی فرائض پر عمل کریں۔
ہندوستان 100 سال مکمل ہونے کے بعد ترقی یافتہ ملک بن گیا ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ملک کے ہر شہری کو اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ہندوستان آزادی کے 100 سال مکمل ہونے کے بعد ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے۔ اس کے لیے تمام شہریوں کو اپنے فرائض ادا کرنا ہوں گے۔ اس تناظر میں مجھے مہاتما گاندھی یاد آتے ہیں جنہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ جو لوگ صرف حقوق چاہتے ہیں وہ ترقی نہیں کر سکتے۔ ’’صرف وہی لوگ ترقی کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنا فرض مذہبی طور پر ادا کیا ہو۔‘‘
شکریہ
جئے ہند۔ ‘‘