ايڈت ہارل سيگل جب پچاس برس کی عمر کو پہنچنے کو تھيں، تو انہوں نے اپنی سالگرہ پر خود کو ايک نہايت ہی منفرد تحفہ دينے کا فيصلہ کيا۔ وہ کسی ضرورت مند کو اپنا ايک گردہ عطيہ کرنا چاہتی تھيں۔ ايڈت اسرائيلی يہودی ہيں اور ان کا عقيدہ ہے کہ کسی کی جان بچانے سے بڑا کوئی کام نہيں۔ قانونی تقاضے پورے ہوئے تو پتا چلا کہ ايڈت کا گردہ ايک تين سالہ فلسطينی بچے کو جانا ہے، جسے زندہ رہنے کے ليے يہ گردہ درکار تھا۔ ايڈت اپنے فيصلے سے پيچھے نہيں ہٹيں۔ آنے والے ماہ ميں جو کچھ ہوا، وہ اسرائيلی فلسطينی تنازعے اور اس خطے ميں يہوديوں اور عرب مسلمانوں کی مشترکہ تاريخ کے ايک مختلف انسانی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ايڈت ہارل سيگل ايک کنڈر گارٹن کی ٹيچر ہيں۔ وہ سالہا سال سے مسلح تنازعے کی زد ميں اپنے علاقے ميں رحم دلی کی ايک مثال بننا چاہتی تھيں۔ ان کے دادا ہولوکاسٹ يا يہوديوں کے قتل عام ميں بچ جانے والوں ميں سے ایک تھے۔ انہوں نے مرتے وقت ايڈت کو نصیحت کی تھی کہ وہ يہودی عقائد و روايات کے تحت زندگی گزاريں اور يہ کہ کسی کی جان بچانے سے بڑا اعزاز کوئی نہيں۔ اور يوں ايڈت نے اپنی پچاسويں سالگرہ سے قبل انسانی اعضاء کے ڈونرز اور ضرورت مندوں کے ايک گروپ سے رابطہ کيا۔نو ماہ کے قانونی مرحلے کے بعد نتيجہ يہ نکلا کہ ايڈت کا گردہ غزہ پٹی ميں مقيم ايک تين سالہ فلسطينی بچے کو جانا ہے۔ ايڈت نے بچے کو عبرانی زبان ميں ايک خط ارسال کيا، جس ميں لکھا تھا، ”تم مجھے نہيں جانتے ليکن بہت جلد ہم قريب ہوں گے کيونکہ ميرا ايک گردہ تمہارے جسم ميں جانے والا ہے۔ غزہ ميں اسرائيليوں کے ساتھ تعاون سے منسلک خطرات کے پيش نظر مذکورہ بچے کے اہل خانہ نے اپنی شناخت مخفی رکھی۔ ٹرانسپلانٹ کی تاريخ سولہ جون طے پائی۔ايڈت ہارل سيگل کے اہل خانہ ان کے فيصلے سے متفق نہیں تھے۔ ان کے خاوند اور سب سے بڑا بيٹا اس فيصلے کے خلاف تھے۔ ايڈت کے والد نے تو ان سے بات چيت تک بند کر دی۔ وہ بتاتی ہيں کہ ان کے اہل خانہ کے نزديک وہ غير ضروری طور پر اپنی جان خطرے ميں ڈال رہی تھيں۔ ايڈت کے خاندان کے تين افراد فلسطينی حملوں ميں ہلاک ہو چکے تھے اور يہ حقيقت بھی ان کے اہل خانہ کی ناراضی کی وجہ بنتی، اس ليے انہوں نے مذکورہ بچے کی شناخت پوشيدہ رکھی۔ وہ بتاتی ہیں، ‘ميرے اہل خانہ اس کے خلاف تھے۔ سب ہی اس کے خلاف تھے، ميرے خاوند، ميری بہن اس کا خاوند ۔۔۔ سب سے بڑے مخالف تو ميرے والد تھے۔سن 2007 سے فلسطينی تنظيم حماس غزہ پٹی کی حکمران جماعت ہے۔ يہ جماعت اسرائيل کو تسليم نہيں کرتی۔ حماس اور اسرائيلی فوج چار جنگيں لڑ چکے ہيں اور حملوں اور جوابی حملوں کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہتا ہے۔ غزہ کے بہت کم لوگوں کو اسرائيلی علاقوں ميں داخلے کی اجازت ہے۔ تاہم انسانی بنيادوں پر ايک محدود تعداد ميں ان مريضوں کو داخلے کی اجازت دے دی جاتی ہے، جنہيں طبی امداد کی ضرورت ہو۔يروشلم کی ايک غير سرکاری تنظيم نے اس ٹراسپلانٹ کا بندوبست کيا۔ مگر يہ ذرا پيچيدہ معاملہ تھا۔ مذکورہ بچے کے والد کو ہسپتال انتظاميہ نے بتايا کہ اگر وہ اپنا ايک گردہ کسی اسرائيلی کو عطيہ کريں تو ان کا بيٹا فہرست ميں سب سے اوپر آ جائے گا۔ پھر ہوا کچھ يوں کہ جس دن ايڈت کا گردہ اس تين سالہ فلسطينی بچے کو ملا، اسی دن اس بچے کے والد کا ايک گردہ، دو بچوں کی ماں ايک اسرائيلی عورت کو ملا۔ايڈت ہارل سيگل کی قربانی رائيگاں نہيں گئی۔ فلسطينی بچے کی جان بچ گئی۔ وہ آج بھی اس فلسطينی بچے اور اس کے والدين کے ساتھ رابطے ميں ہيں۔ يوں عملی طور پر حالت جنگ ميں دو برادرياں، رحم دلی کے جذبے کے تحت قريب آ گئيں۔ايڈت ہارل سيگل کے مطابق انہوں نے پانچ برس قبل گزر جانے والے اپنے دادا کے ليے ايک ايسا کام سر انجام ديا ہے، جو ہميشہ اب انہيں ان کی ياد دلاتا ہے۔ وہ بتاتی ہيں کہ آج ان کے اہل خانہ کے وہ تمام ارکان، جو اس فيصلے کے خلاف تھے، اب ان کے فيصلے کو سمجھتے ہيں۔ ايڈت بتاتی ہيں کہ سرجری سے پہلے والی رات ان کے والد نے انہيں فون کيا اور انہوں نے اپنے والد کو آخری مرتبہ بتايا کہ گردہ ايک فلسطينی بچے کو ديا جا رہا ہے۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ان کے والد نے انہيں يہ جواب ديا، ‘چلو اسے بھی جينے کا حق ہے۔