واشنگٹن: امریکا کی جانب سے افغان مہاجرین کے لیے پاکستانی سرحدیں کھولنے کا مطالبہ دونوں ممالک کے مابین پہلے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے افغان شہریوں کے لیے نئی امریکی مہاجرین پالیسی کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ضروری ہوگا کہ پاکستان اپنی سرحدیں (افغان مہاجرین) کے لیے کھلی رکھے‘۔عہدیدار نے مزید کہا کہ ظاہر ہے کہ اگر لوگ شمال کی طرف یا ایران کے راستے ترکی جاتے ہیں تو (انہیں) ملک میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت یا یو این ایچ سی آر میں رجسٹر ہونے کا موقع ملتا ہے۔پیر کے روز اعلان کیا گیا تھا کہ نیا پروگرام ان افغان ملازمین پر لاگو ہوتا ہے جنہوں نے امریکی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں یا میڈیا یا غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے لیے کام کیا۔امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے علاوہ ترکی سے بھی کہا ہے کہ وہ افغانوں کو امریکا میں دوبارہ آباد ہونے سے قبل 14 ماہ تک ملک میں رہنے کی اجازت دے۔خیال رہے کہ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے رواں ہفتے واشنگٹن میں ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ بے گھر افغانیوں کو پاکستان میں داخل کرنے کے بجائے انہیں اپنے ملک کے اندر رکھنے کے انتظامات کیے جائیں۔انہوں نے کہا تھا کہ ’انہیں در بدر کیوں کیا جائے؟ ان کے لیے ان کے ملک کے اندر انتظام کریں، پاکستان میں مزید مہاجرین لینے کی صلاحیت نہیں ہے‘۔ترک حکومت نے بھی افغانوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے تیسرے ممالک کو استعمال کرنے کے امریکی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے خطے میں ‘مہاجرین کا ایک بڑا بحران پیدا ہوگا۔ترکی کی وزارت خارجہ نے انقرہ میں جاری ایک بیان میں کہا کہ ہم اپنے ملک سے مشورہ کیے بغیر امریکا کے غیر ذمہ دارانہ فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکا ان لوگوں کو اپنے ملک لے جانا چاہتا ہے تو ان کو براہ راست طیاروں کے ذریعے اپنے ملک منتقل کرنا ممکن ہے۔ایران اور پاکستان دو ممالک ہیں جو اس آبادکاری کے منصوبے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔امریکا کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اس لیے امریکی پالیسی ساز پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ وہ اس پروگرام کو نافذ کرنے میں مدد کرے۔تاہم پاکستان ایسا کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے، 1979 کے بعد سے پاکستان لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کر چکا ہے اور 30 لاکھ سے زائد مستقل طور پر ملک میں آباد ہیں۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی معیشت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ وہ زیادہ مہاجرین رکھ سکیں۔