ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے پارلیمنٹ میں اپنے منصب کا حلف اٹھالیا جس کے ساتھ ہی وہ ایران کے آٹھویں صدر بن گئے ہیں اور انہوں نے دنیا کے تمام اور خصوصاً خطے کے ممالک سے دوستانہ تعلقات کا عزم ظاہر کیا ہے۔نئے صدر کو اقتدار میں آتے ہی امریکی پابندیوں، کورونا کے سبب صحت کے بڑھتے ہوئے بحران، تیزی سے بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے ایٹمی معاہدے کی بحالی اور مشکلات سے دوچار معیشت سے نمٹنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔سابق جج کو انسانی حقوق کے منفی ریکارڈ کے سبب مغربی میڈیا کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ہزاروں سیاسی قیدیوں کی پھانسی میں ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔رئیسی نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو لوگوں کی خدمت، ملک کی عزت، مذہب اور اخلاقیات کی تبلیغ اور سچ اور انصاف کی حمایت کے لیے وقف کروں گا۔3 اگست کو سابق پراسیکیوٹر کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدر بنانے کی منطوری دی تھی جنہوں نے نسبتاً معتدل سابق صدر حسن روحانی کی جگہ لی ہے۔حسن روحانی کی سب سے بڑی کامیابی عالمی طاقتوں سے ہونے والا جوہری معاہدہ تھا، جس کے نتیجے میں ایران پر عائد بیشتر پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں، البتہ خواتین کے حقوق جیسے امور پر وہ بھی اصلاحات میں ناکام رہے۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ختم کرتے ہوئے 2018 میں پابندیوں کا دوبارہ اطلاق کر دیا تھا جس سے ایران کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، لہٰذا امید ہے کہ ملک کی معاشی پریشانیوں سے نمٹنے کے لیے ایٹمی معاہدے کی بحالی نئے صدر کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوگی۔اپنے افتتاحی خطاب میں ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ ایران پر پابندیاں ختم کی جانی چاہئیں، ہم اس ہدف کی حمایت کرنے والے کسی بھی سفارتی منصوبے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے دنیا کے ساتھ روابط رکھنے کا عزم طاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں دنیا کے تمام ممالک خصوصاً خطے کے ممالک کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ خطے کے تنازعات اور بحرانوں کو صرف مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور غیرملکی افواج کی موجودگی مزید عدم استحکام کا سبب بنے گی۔سابقہ معاہدے کو بحال کرنے کے سلسلے میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اپریل اور جون کے درمیان ویانا میں جوہری مذاکرات کے چھ دور ہوئے اور آخری دور 20 جون کو اختتام پذیر ہوا تھا۔رئیسی نے اپنی انتخابی فتح کے بعد کہا تھا کہ وہ اس معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک روس نے تہران میں تقریب حلف برداری کے لیے دوما کے اسپیکر ویاچیسلاو ولودین کو بھیجا۔ایرانی میڈیا نے بتایا کہ 5 اگست کی تقریب میں کئی غیر ملکی عہدیداروں کو مدعو کیا گیا تھا جن میں عراقی صدر اور نائیجر، شام، تاجکستان، تنزانیہ اور ازبکستان کے پارلیمنٹ کے اسپیکر شامل ہیں۔توقع کی جا رہی ہے کہ حلف برداری کے فوراً بعد ابراہیم رئیسی اپنی مجوزہ کابینہ میں شامل نام پیش کریں گے۔رئیسی کو اس وقت ایک بڑے بحران کا بھی سامنا ہے کیونکہ امریکا، اسرائیل اور برطانیہ نے گزشتہ ہفتے عمان کے ساحل پر ایک اسرائیلی ٹینکر پر حملے کی ذمہ داری ایران پر عائد کی ہے، البتہ ایران اس الزام سے انکار کرتا رہا ہے۔ایران کو کووڈ-19 کی وبا کا بھی سامنا ہے جہاں 40 لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور 92ہزار سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔