اقوام متحدہ نے حملے نہ کرنے کی اپیل ایک ایسے وقت کی ہے، جب طالبان پہلی بار ایک صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ عالمی برادری نے تشدد کے خاتمے اور امن مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر ڈیبورا لیونز نے طالبان سے ملک کے بڑے شہروں پر فوری طور پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیونز نے چھ اگست جمعے کے روز کابل سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک کھلے اجلاس سے خطاب کے دوران یہ بات کہی۔ اس سے قبل طالبان نے ملک کے جنوبی صوبے نمروز کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ حالیہ لڑائی کے دوران یہ پہلا موقع ہے، جب طالبان نے کسی صوبے کو اپنے کنٹرول میں لیا ہو۔ صوبے کے نائب گورنر روح گل خیرزاد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ‘ نمروز بغیر لڑائی کے ہی ہاتھ سے نکل گیا۔‘‘ اقوام متحدہ کے سفیر نے کیا کہا؟ پندرہ رکنی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے لیونز نے کہا، ‘سکیورٹی کونسل کی جانب سے ایک بہت واضح بیان جاری ہونا چاہیے کہ بڑے شہروں کے خلاف حملے اب بند ہونے چاہئیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ‘افغانستان میں جنگ اب ایک نئے، مہلک اور زیادہ تباہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔‘‘ سفارت کار نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ طالبان کے دل میں عام شہریوں کے مفادات ہیں بھی یا نہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ایک فریق، جو بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے حقیقی طور پر اتنا پر عزم تھا، آخر وہ اتنی زیادہ شہری ہلاکتوں کا خطرہ مول کیوں لے گا، کیونکہ وہ اتنی سمجھ تو رکھتا ہو گا کہ جتنا زیادہ خون بہے گا مفاہمت کا عمل بھی اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ افغانستان کی حکومت نے ملک میں تیزی سے بگڑتی صورت حال کے پیش نظر سکیورٹی کونسل کے اجلاس کا مطالبہ کیا تھا اور اسی وجہ سے یہ میٹنگ ہوئی۔ امریکا اور روس کی تشویش امریکی سفیر جیفری ڈی لاروینٹز نے بھی حملے بند کرنے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی حل سے عوام اور انفراسٹرکچر دونوں ہی محفوظ رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ‘طالبان کو عالمی برادری کی یہ بات سننی ہو گی کہ ہم افغانستان پر فوجی قبضے کو یا پھر طالبان کی اسلامی امارت کی دوبارہ واپسی کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر نے بھی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال دن بدن مزید مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ‘بیرونی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی صورت حال بہت بھیانک نظر آتی ہے۔ بد قسمتی سے ملک کے مکمل اور طویل خانہ جنگی میں پھسلنے کے امکانات اب ایک حقیقی بات لگتی ہے۔‘‘یورپی یونین طالبان کے حملوں کی شروع سے ہی مذمت کرتی رہی ہے اور اس کا بھی یہی مطالبہ رہا ہے کہ لڑائی کو فوری پر روک دینا چاہیے۔ طالبان کی پیش قدمی جاری اس دوران طالبان نے جہاں ملک کے بیشتر مضافاتی علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا ہے، وہیں پہلی بار ایک صوبائی دارالحکومت پر بھی قبضہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جمعے کے روز طالبان نے ایران کی سرحد سے متصل صوبے نمروز کے دارالحکومت زرنج پر قبضہ کر لیا۔ زرنج ایک اہم تجارتی شہر ہے اور حالیہ کچھ برسوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے، جب طالبان نے افغانستان کے کسی صوبائی دارالحکومت کو اپنے کنٹرول میں لیا ہو۔ طالبان کی جانب سے قندوز، ہرات اور لشکر گاہ جیسے بڑے شہروں پر قبضے کے لیے شدید حملے جاری ہیں۔ امریکا اور نیٹو افواج کی جانب سے اس برس مئی میں مرحلہ وار انخلا شروع کرنے کے بعد سے لڑائی میں اضافہ ہوا ہے۔ توقع ہے کہ انخلا کا یہ عمل اس ماہ کے اواخر تک مکمل ہو جائے گا۔ انخلا کے باوجود امریکا افغان حکومت کی فوج کو فضائی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ طالبان نے اس کے رد عمل میں یہ کہا ہے کہ اب وہ اعلیٰ سرکاری حکام کو نشانہ بنائیں گے۔ جمعے کو ہی طالبان کے ایک حملے میں حکومتی میڈیا آپریشن کے سربراہ کو قتل کر دیا گيا تھا۔ چند روز قبل ہی افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع کو بھی ایک قاتلانہ حملے میں نشانہ بنایا گیا، جس میں وہ تو بچ گئے تھے تاہم اس حملے میں کم از کم آٹھ دیگر افراد ہلاک اور مزید 20 زخمی ہوئے تھے۔