وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر جوبائیڈن کی فون کال کا حقیقت میں ‘انتظار’ نہیں کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر غیر ملکیوں صحافیوں سے گفتگو کے دوران نیوز ایجنسی رائٹرز کے نمائندے کے سوال پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘میں سن رہا ہوں کہ صدر جوبائیڈن نے مجھے کال نہیں کی، یہ ان کا معاملہ ہے، ایسا نہیں ہے کہ میں ان کا انتظار کر رہا ہوں’۔وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا تھا کہ اگر جوبائیڈن نے ہماری قیادت کو اسی طرح نظر انداز کیا تو ہمارے پاس اور مواقع بھی ہیں۔فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں معید یوسف کا کہنا تھا کہ ‘امریکا کے صدر نے ایک اہم ملک کے طور پر وزیراعظم سے بات نہیں کی، حالانکہ امریکا خود کہتا ہے کہ افغانستان میں بہت اہمیت ہے اور ہم اشارے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں’۔انہوں نے وضاحت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہمیں ہر وقت یہی کہا گیا کہ فون آئے گا، یہ ٹینکیکل وجہ ہے یا کچھ اور لیکن لوگ اس پر یقین نہیں کرتے، اگر فون کال رعایت ہے، اگر سیکیورٹی کے تعلقات ایک رعایت ہیں تو پھر پاکستان کے پاس آپشنز ہیں’۔وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کے دوران افغانستان کی صورت حال، پاکستان پر اس کے اثرات اور جنگ زدہ ملک سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے بھی بات کی۔انہوں نے کہا کہ ‘امریکا جلد بازی میں افغانستان چھوڑ گیا، اگر وہ سیاسی حل چاہتے تھے تو پھر عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ جب آپ طاقت میں ہوں تو مذاکرات کریں’۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا اب پاکستان پر الزام عائد کر رہا ہے جب کوئی موقع نہیں بچا ہے۔اس سے قبل مذکورہ انٹرویو کے ڈان اخبار میں شائع ہونے والے ایک حصے میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ عمران خان نے کہا کہ ‘میرے خیال میں امریکی فیصلہ کر چکے ہیں کہ بھارت اسٹریٹجک شراکت دار ہے، ہوسکتا ہے کہ اسی لیے پاکستان کے ساتھ مختلف سلوک کیا جارہا ہے، پاکستان کو صرف گند صاف کرنے کے لیے کارآمد تصور کیا جاتا ہے’، جو وہ 20 سال سے جاری لڑائی کے بعد افغانستان میں چھوڑ کر جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی چین کے ساتھ قربت بھی امریکی رویے میں تبدیلی کی دوسری وجہ ہے۔ایسے میں کہ جب عسکریت پسندوں اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں بڑھ چکی ہیں، واشنگٹن اسلام آباد پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ امن معاہدہ کرانے کے لیے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کو صرف یہ گندگی ٹھکانے لگانے کے تناظر میں کارآمد سمجھا گیا ہے جو 20 سال سے ایک فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش میں پیچھے رہ گئی ہے جبکہ کوئی عسکری حل تھا ہی نہیں۔امریکا سال 2001 میں طالبان کی حکومت ختم کرنے کے 20 سال بعد 31 اگست کو اپنی افواج افغانستان سے نکال لے گا لیکن آج طالبان اس وقت سے کہیں زیادہ علاقے پر قابض ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ اسلام آباد، افغانستان میں طرف داریاں نہیں کر رہا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں افغانستان میں ایک سیاسی تصفیہ مشکل لگ رہا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب طالبان کسی تصفیے پر پہنچنے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئے تھے اس وقت انہوں نے ان کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔وزیر اعظم کے مطابق طالبان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ‘معاملہ یہ ہے کہ جب تک صدر اشرف غنی یہاں موجود ہیں وہ افغان حکومت سے بات چیت نہیں کریں گے۔