جرمنی کے ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل اور نیٹو کے سابق سینئر کمانڈر ایگون رمس نے افغانستان میں طالبان کی انتہائی تیز رفتار پیش قدمی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے حکومتی فورسز کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔سابق فور اسٹار جرمن جنرل ایگون رمس سن 2007 سے سن 2010 کے درمیان افغانستان میں اتحادی مشترکہ فورس کے کمانڈر تھے۔ وہ نیٹو کی قیادت والی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (آئی ایس اے ایف) کے افغان مشن کے نگراں بھی تھے۔ ایگون رمس نے ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں کہا،”طالبان جس تیزی بلکہ بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اس سے میں حیرت زدہ رہ گیا ہوں۔” فوج کے انخلاء کے نیٹو کے فیصلے پر سوالات جنرل رمس نے کہا کہ انہیں اگست کے اواخر تک امریکی افواج کے مکمل انخلا ء کے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کے فیصلے نے حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس تیزی کے ساتھ افواج کا انخلاء ہو رہا ہے اس نے نیٹو کی ذمہ داری پر متعدد سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ افواج کے انخلاء کے فیصلے کو ”غلطی” قرار دیتے ہوئے جنرل رمس نے کہا کہ یہ انخلاء فوج کی تعداد میں کمی کے مقابلے میں یکسر مختلف ہے جس کا اعلان سن 2010 میں اس وقت کیا گیا تھا جب وہ سبکدوش ہو رہے تھے۔ جرمنی نے افغانستان میں دوبارہ فوج بھیجنے کی تجویز مسترد کر دی جنرل رمس نے کہا،”سن 2010 میں ہم ازسرنو تعیناتی اور آئی ایس اے ایف مشن کو مختصرکرنے کی باتیں کر رہے تھے۔ لیکن اسے بہت تیزی سے انجام دیا گیا، سن 2014 میں بہت تیزی سے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہی غلطی اس مرتبہ بھی دہرائی گئی ہے۔ ہم اس ماہ مشن سمیٹنے جارہے ہیں۔” آخر افغان فوج کیا کر رہی ہے؟ طالبان جنگجوجارحانہ انداز میں جیسے جیسے آگے بڑھ رہے ہیں افغان سکیورٹی فورسز پسپائی اختیار کرتی جارہی ہے۔ یکے بعد دیگر شہر وں پر طالبان کا قبضہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جنرل رمس سوال کرتے ہیں کہ آخر افغان فورسز نے طالبان کے خلاف مضبوط جوابی حملے کیوں نہیں کیے۔ ”ہم نے افغان نیشنل آرمی کو تربیت دی اور بالخصوص امریکیوں نے انہیں بہترین اسلحوں سے اچھی طرح لیس کیا۔ اس لیے اس نقطہ نظر سے میرا سوال یہ ہے کہ آخر افغان فوج اس وقت کر کیا رہی ہے۔؟” افغان رہنماؤں کو اپنی جنگ خود ہی لڑنی ہو گی، جو بائیڈن نیٹو کے سابق اعلی کمانڈر نے کہا کہ لاکھوں افغان فوجی ایسے ہیں جنہیں جنگ کا تجربہ ہے اور جنہوں نے امریکیوں اور جرمنوں سے تربیت حاصل کی ہے۔ ”مجھے حیرت ہے کہ آخر وہ سب کہاں چلے گے؟” سابق جرمن جنرل نے کہا،”آخر وہ پرانے فوجی کیا کررہے ہیں۔ تقریباً دو لاکھ فوجی اس وقت موجود ہیں۔ جن کے پاس اسلحہ بھی ہے اور جنہوں نے امریکیوں سے، جرمنوں سے اور دیگر ملکوں سے تربیت بھی حاصل کی ہے۔” خیال رہے کہ طالبان نے غزنی اور ہیرات کے بعد قندھار پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔