افغان وزارت داخلہ کے مطابق طالبان نے سبھی اطراف سے دارالحکومت کابل میں داخل ہونا شروع کر دیا ہے۔ نیٹو حکام کے مطابق یورپی سفارتی عملے کو کابل میں ہی ایک نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔طالبان قیادت کا اپنے جنگجوؤں کے نام پیغام دوحہ میں ایک طالبان رہنما نے کہا ہے کہ طالبان قیادت نے دارالحکومت میں داخل ہونے والے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ تشدد سے گریز کریں، جو کسی دوسری جگہ جانے کے لیے محفوظ راستہ طلب کرے، اسے جانے دیا جائے اور خواتین کو محفوظ مقامات تک جانے کی اجازت دی جائے۔ طالبان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ’طاقت کی بنیاد‘ پر کابل پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے۔ سفارتی عملے کا انخلا افغان دارالحکومت کابل میں امریکی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں ہیلی کاپٹر لینڈ کرتے دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ عملہ خصوصی گاڑیوں کے ذریعے سفارت خانے سے نکل رہا ہے۔ سفارت خانے سے دھواں اٹھتا بھی دیکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے امریکی حکام نے کہا تھا کہ حساس مواد جلانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ امریکا کی طرف سے یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آئی ہے، جب افغان طالبان نے ملک کے آخری بڑے شہر جلال آباد پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اس طرح افغان حکومت صرف کابل تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے جبکہ دارالحکومت کے ارد گرد طالبان گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ جلال آباد پر قبضہ طالبان نے افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد پر قبضہ کر لیا ہے۔ خبر رساں اداروں کو مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ صوبہ ننگرہار کا دارالحکومت بغیر کسی لڑائی یا مزاحمت کے طالبان کو سونپ دیا گیا اور صوبائی گورنر نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ یہ شہر پاکستانی سرحد کے قریب سب سے بڑا شہر بھی ہے اور اسے پاکستان کے ساتھ تجارت کے حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ توقعات کے برعکس حالیہ ایک ہفتے کے دوران طالبان نے متعدد دارالحکومتوں پر آسانی سے قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان جنگجوؤں کی جانب سے یا تو افغان فورسز کو شکست دے دی گئی یا پھر ان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے انہیں بھاگنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ صدر اشرف غنی ‘تنہا‘ رہ گئے طالبان کی تیز تر پیش قدمی کے بعد گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی پہلی مرتبہ قوم سے خطاب کے لیے سامنے آئے تھے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ قبائلی سردار جنہوں نے ایک روز قبل ہی صدر غنی سے ملاقات کی تھی، یا تو بھاگ گئے ہیں یا پھر انہوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس طرح صدر اشرف غنی بغیر کسی ‘فوجی طاقت تنہا رہ‘ گئے ہیں۔ دوسری جانب قطر میں جاری مذاکرات بھی اس حوالے سے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کہ طالبان اپنی پیش قدمی روک دیں۔ ‘اشرف غنی کا استعفی کابل کو بچا سکتا ہے‘ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو کے سابق سینئر مشیر اور کینیڈا اور فرانس میں سابق افغان سفیر عمر صمد کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ دو عشروں میں افغان حکومت کی کرپشن سے طالبان کی ‘حوصلہ افزائی‘ ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی ابھی تک مستعفی ہونے سے انکار کر رہے ہیں، ”بظاہر صدر ابھی عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تاکہ عبوری حکومت کی راہ ہموار کی جا سکے لیکن افغانستان کو ایک عبوری حکومت ہی چاہیے، جو ممکنہ طور پر کابل کو کسی بھی قسم کے حملے سے بچا سکتی ہے۔‘‘ عمر صمد کے مطابق فی الحال طالبان کابل پر حملہ نہیں کرنا چاہتے لیکن اگر ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ بچا تو پھر وہ حملہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ طالبان کی پیش قدمی کی وجہ سے ہزاروں افراد، بچے بوڑھے اور خواتین اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو کر رہ گئے ہیں۔ دارالحکومت کابل میں بھی پارکوں اور کھلی جگہوں پر رش بڑھتا جا رہا ہے کیوں کہ لوگ مستقبل کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔ دارالحکومت کے بینکوں کے سامنے عوام کی لائنیں لگی ہوئی ہیں کیوں کہ وہ اپنی جمع پونجی بینکوں سے نکلوا رہے ہیں۔ دوسری جانب ملک کے امیر اور کاروباری حضرات جلد از جلد ملک چھوڑنے کے لیے کابل ایئرپورٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان سے باہر نکلنے کا یہ اب واحد راستہ بچا ہے۔