افغان حکومتی عہدیداروں کے فرار کے بعد صدارتی محل کا کنٹرول طالبان نے سنبھال لیا اور اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم ہوچکی ہے۔خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز کابل میں تیز ترین پیش رفت، خوف اور افراتفری کا ماحول رہا، جس کے بعد بالآخر رات گئے بھاری ہتھیاروں سے مسلح جنگجوؤں نے خالی صدارتی محل کا کنٹرول سنبھال لیا۔اس دوران مغربی ممالک اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنے میں مصروف رہے جبکہ سیکڑوں افغان شہری بھی ملک چھوڑنے کے لیے کابل ایئر پورٹ پہنچے۔ایک آن لائن ویڈیو طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر نے بھی فتح کا اعلان کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اب یہ امتحان اور ثابت کرنے کا وقت ہے، اب ہمیں یہ دکھانا ہے کہ ہم اپنی قوم کی خدمت کرسکتے ہیں اور آرام دہ زندگی اور تحفظ یقینی بناسکتے ہیں۔طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گروہ تنہائی میں نہیں رہنا چاہتا اور افغانستان کی نئی حکومت کی شکل جلد واضح ہوگی۔ساتھ ہی محمد نعیم نے پر امن بین الاقوامی تعلقات رکھنے پر بھی زور دیا اور کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ ملک میں جنگ ختم ہوچکی ہے‘۔طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہم جو حاصل کرنا چاہ رہے تھے اس تک پہنچ گئے جو ہمارے ملک اور عوام کی آزادی ہے۔انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہم اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچائیں گے۔خیال رہے کہ عسکریت پسند مزاحمت کے بغیر جلال آباد فتح کرنے کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے تھے جہاں ان کے اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے افغان رہنما سے بات چیت بھی ہوئی۔ایک طالبان رہنما نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مختلف صوبوں سے جنگجو دوبارہ منظم ہورہے ہیں اور نیا حکومتی ڈھانچہ تشکیل دینے سے قبل غیر ملکی افواج کے ملک سے جانے کا انتظار کیا جائے گا۔شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ جنگجوؤں کو ہدایت کی گئی ہے کہ افغان عوام کو روزمرہ کے امور انجام دینے کی اجازت دی جائے اور ایسا کچھ نہ کیا جائے جس سے شہری خوفزدہ ہوں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں فی الحال یہی کہہ سکتا ہوں کہ معمول کی زندگی کہیں بہتر طریقے سے جاری رہے گی‘۔طالبان جنگجووں نے افغان دارالحکومت میں شہریوں سے ہتھیار اکٹھے کرنے شروع کردیے کیوں کہ طالبان عہدیدار کے مطابق اب انہیں اپنے حفاظت کے لیے ان کی ضرورت نہیں۔عہدیدار نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ہم سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار رکھتے ہی لیکن انہیں محفوظ تصور کرنا چاہیے، ہم یہاں شہریوں کو نقصان پہنچانے نے لیے نہیں ہیں۔ایک میڈیا کمپنی کے عہدیدار نے ٹوئٹ میں بتایا کہ طالبان جنگجو ان کی کمپنی میں آئے اور سیکیورٹی ٹیم کے پاس موجود ہتھیاروں کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔نیٹو اتحادی جو امریکی صدر کی جانب سے اپنی افواج کے 31 اگست تک انخلا کے اعلان کے بعد اپنی افواج وطن واپس بلا چکے تھے اب شہریوں کو نکالنے کے لیے فوجی اہلکاروں کو واپس بھیج رہے ہیں۔کچھ نے شکایت کی کہ امریکا ان افغان شہریوں کو تیزی سے واپس لانے میں ناکام ہورہا ہے جو ماضی میں امریکیوں اور نیٹو افواج کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خطرے میں گھرے ہیں۔امریکی ایئرفورس کے ایک سابق اہلکار سیم لیرمین کا کہنا تھا کہ ’یہ نااہلی سے ہونے والا قتل ہے‘ وہ افغانستان کی بگرام ایئربیس پر ایک دہائی تک نیٹو اور امریکی فورسز کی حفاظت کرنے والے ایک افغان کانٹریٹکٹر کو وہاں سے نکالنے کے لیے سخت کوشش کررہے ہیں۔ادھر امریکی انتظامیہ کو ملک میں انخلا کے انتظامات پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔امریکی محکمہ دفاع اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں ہزاروں امریکیوں، سفارتخانے کے مقامی عملے اور دیگر باالخصوص ’خطرے کا شکار افغان شہریوں‘ کو ملک سے نکالنے کا وعدہ کیا گیا۔بیان میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں تاہم اہم عہدوں پر فائز افغان خواتین، صحافی اور مغربی حکومتوں، این جی اوز کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہری ان میں شامل ہیں جنہیں طالبان کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ہے۔بیان میں اعتراف کیا کہ امریکا کو ان افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور صرف یقین دہانی کروائی گئی ہم دیگر ممالک ڈھونڈیں گے کہ ان میں سے کچھ افغانوں کو وہاں پہنچایا جائے۔دوسری جانب امریکی ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کابل کے سفارتخانے سے عملے کا انخلا مکمل کرلیا گیا ہے۔نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہم تصدیق کرسکتے ہیں کہ تمام سفارتی اہلکاروں کا محفوظ انخلا مکمل ہوچکا ہے، سفارت خانے کے تمام اہلکار حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے احاطے میں ہیں جسے امریکی فوج نے محفوظ بنایا ہوا ہے۔واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا۔تاہم 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر برق رفتاری سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔چند روز قبل ایک امریکی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ طالبان 90 روز میں کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں تاہم طالبان کے برق رفتار پیش قدمی کے ساتھ کابل پر قبضے نے تمام اندازے غلط ثابت کردیے۔