افغانستان کے کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے خودکش سمیت دو دھماکوں کے نتیجے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 85 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ حملے میں ان کے بھی 28 اراکین مارے گئے۔خبر رساں ادارے’اے پی’ کی رپورٹ کے مطابق دھماکے ایسے وقت میں ہوئے کہ جب مغربی حکام پہلے ہی بڑے حملوں کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے لوگوں کو کابل ایئرپورٹ سے دور رہنے کی ہدایت کر رہے تھے جسے ملک سے فرار کے خواہشمند افغانوں نے بڑی حد تک نظر انداز کردیا تھا۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان نے بتایا کہ حملےمیں 18 فوجی زخمی بھی ہوئے جنہیں سرجیکل یونٹس سے لیس سی-17 طیاروں کی مدد سے افغانستان سے نکالا جارہا ہے۔پہلا دھماکا کابل ایئرپورٹ کے ایبے گیٹ کے باہر ہوا جہاں خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں جبکہ دوسرا دھماکا بیرن ہوٹل کے نزدیک ہوا جہاں انخلا کے منتظر امریکی، برطانوی اور افغان شہریوں کو آج کل ٹھہرنے کو کہا جارہا تھا۔اس کے علاوہ بھی کابل میں رات دیر گئے تک دھماکوں کی آوازیں آتی رہیں تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ کچھ دھماکے امریکی افواج نے اپنے آلات تباہ کرنے کے لیے کیے۔طالبان کی جانب سے ایئرپورٹ پر ہونے والے دھماکوں کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ یہ علاقہ امریکی فوج کے زیر کنٹرول تھا۔ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘امارت اسلامی کابل ایئرپورٹ پر دھماکا کرکے شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتی ہے’۔ایک طالبان عہدیدار نے داعش کے حملے میں ہلاک ہونے والے طالبان ارکان کی تعداد پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم نے ایئرپورٹ دھماکے میں امریکیوں سے زیادہ لوگوں کو کھو دیا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی ممالک کے تیار کردہ افراتفری میں انخلا کے منصوبے کے ذمہ دار طالبان نہیں تھے۔خیال رہے کہ سال 2011 میں ایک ہیلی کاپٹر مار گرائے جانے کے واقعے میں 30 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد گزشتہ روز کابل میں ہوئے دھماکے میں 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت ایک واقعے میں ہلاکتوں کی سب سے بڑئی تعداد ہے۔ایک امریکی عہدیدار نے ابتدائی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ زخمیوں میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں، ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں لیکن وہ تعداد اور ان کی شہریت کے حوالے سے کچھ نہیں جانتے ہیں۔پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ پہلا دھماکا ایبے گیٹ کے قریب ہوا اور دوسرا بیرون ہوٹل کے قریب ہوا، دو امریکی عہدیداروں نے کہا کہ ایک دھماکا خودکش تھا۔جان کربی نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘ہم تصدیق کرسکتے ہیں کہ آبے گیٹ کے قریب ہونے والا دھماکا بدترین حملہ تھا، جس کے نتیجے میں امریکی اور شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم ایک اور دھماکے کی تصدیق کرسکتے ہیں جو بیرون ہوٹل کے قریب، آبے گیٹ سے مختصر فاصلے پر ہوا’۔خبرایجنسی رائٹرز کو امریکی عہدیدار نے بتایا کہ زخمیوں میں امریکی فوج کے تین عہدیدار شامل ہیں لیکن تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔امریکی عہدیدار نے کہا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق امریکی فوج کا ایک اہلکار شدید زخمی ہوا ہے۔کابل میں قائم امریکی سفارت خانے نے واقعے کو ‘ایک بڑا دھماکا’ سے تعبیر کیا اور کہا کہ فائرنگ کی رپورٹس بھی ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کہا تھا کہ خفیہ اطلاع ہے کہ کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکا ہوسکتا ہے۔غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ذرائع نے بتایا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کو کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے کے بارے میں آگاہ کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جوبائیڈن اس وقت سیکیورٹی حکام کے ساتھ افغانستان کی صورت حال ہونے والے ایک اجلاس میں شریک تھے اور پہلے دھماکے کی رپورٹ آئی۔برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہاکہ دھماکے کی اطلاع کے بعد وجوہات کے تعین کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔سماجی رابطےکی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ‘ہم ہنگامی طور پر کابل میں کیا ہوا اور انخلا کی کوششوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے، اس کا تعین کر رہے ہیں’۔برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ ‘ہماری اولین ترجیح اپنے عہدیداروں، برطانیہ اور افغانستان کے شہریوں کی سلامتی ہے، ہم اپنے امریکی اور نیٹو اتحادیوں سے قریبی رابطے میں ہیں تاکہ واقعے پر فوری امدادی کام کیا جائے’۔ترک وزارت دفاع نے کہا کہ کابل ایئرپورٹ کے باہر دو دھماکے ہوئے ہیں تاہم ترک فوج کے کسی عہدیدار کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔خیال رہے کہ مغربی ممالک نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر فوری طور پر کابل ایئرپورٹ کے اطراف سے نکل جائیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے نامعلوم ’سیکیورٹی خطرات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایبی گیٹ، جنوبی گیٹ یا شمالی گیٹ پر موجود افراد کو فوری طور پر نکل جانا چاہیے’۔آسٹریلیا کے خارجہ امور کے محکمے نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ برقرار ہے اور بہت زیادہ ہے اس لیے کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر سفر نہ کریں۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ ہوائی اڈے کے علاقے میں ہیں تو کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں اور مزید مشورے کا انتظار کریں۔