امریکی عدالت کے جج نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی نمائندگی کرنے والے ممتاز وکلا کے خلاف ایک غیر واضح فیصلہ جاری کیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈسٹرکٹ جج لنڈا پارکر نے مشی گن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل کی جانب سے دائر مقدمے کو ’عدالتی کارروائی کا غلط استعمال‘ قرار دیا۔110 صفحات پر مشتمل عدالت کا فیصلہ بدھ کو جاری کیا گیا جس میں سڈنی پاول، لن ووڈ اور سات دیگر افراد پر پابندیاں عائد کی گئیں جنہوں نے انتخابات میں دھوکا دہی کا الزام لگایا تھا۔جج نے کہا کہ وکلا کا مقصد انتخابی نظام کو کمزور کرنا ہے۔انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ‘یہ معاملہ کبھی بھی دھوکا دہی کا نہیں تھا، یہ ہماری جمہوریت پر لوگوں کے اعتماد کو مجروح کرنے اور عدالتی عمل کو کمزور کرنے کا تھا‘۔جج نے وکلا کو حکم دیا کہ وہ اپنے مخالفین کے عدالتی اخراجات ادا کریں اور 12 گھنٹے کی قانونی تعلیم کو پورا کریں۔انہوں نے انہیں مشی گن اٹارنی کی شکایت کمیشن اور مقامی انضباطی کمیٹیوں کے حوالے بھی کیا جہاں سے انہیں لائسنس حاصل ہوا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے اپنی 2020 کی انتخابی شکست کے بعد پورے امریکا میں مقدمہ دائر کیا جس میں ووٹروں کے وسیع پیمانے پر دھوکا دہی کے بے بنیاد دعوے کیے گئے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ماہ تک موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی عوامی طور پر فتح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں نے صرف اس بات کا اعتراف کیا کہ جنوری 2021 میں امریکی کیپیٹل ہل کی عمارت پر ان کے حامیوں کے ایک گروپ نے پرتشدد حملہ کیا جس کے نتیجے میں مصدقہ نتائج کو روکنے کی کوشش کی گئی۔بدھ کا فیصلہ ان لوگوں کے لیے قانونی ثمرات کا ایک تازہ ترین سلسلہ ہے جنہوں نے سابق صدر کا مقدمہ عدالت میں پیش کیا۔دعویٰ کیا گیا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم نے لاکھوں ووٹوں کو تبدیل کر دیا ہے تام ڈونلڈ ٹرمپ نے بعد میں خود کو ان دعووں سے الگ کرلیا تھا۔