ایتھوپیا کے انسانی حقوق کے کمیشن (ای ایچ آر سی ) کا کہنا تھا کہ ایتھوپیا کے کشیدگی سے متاثرہ علاقے ارومیا میں کئی روز سے جاری نسلی فسادارت میں 210 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ڈان اخبار کی رپورٹ کےمطابق حکومت سے منسلک آزاد کمیشن کا کہنا تھا کہ عینی شاہدین کے بیان کے مطابق باغی گروپ ارومو لیبریشن آرمی (او ایل اے) سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد 18 اگست کو مغربی علاقے گیڈاکریمو میں سیکیورٹی فورسز کے انخلا کے بعد آئے تھے۔انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا تھا کہ مقامی افراد نے کمیشن کو بتایا کہ مسلح افراد نے 150 سے زائد کو ہلاک کیا ہے۔حملے کے نتیجے میں خواتین اور بچے پڑوسی علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں جبکہ انتقامی بنیاد پر فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔کمیشن نے بتایا کہ’شہریوں کو آئے روز نسلی حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور 60 افراد ہلاک ہوئے’ اور تشدد نے مزید شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔پینل نے عدم استحکام کے مزید پھیلاؤ فوری روکنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کی جائیں کہ کشیدگی والے علاقوں سے سیکیورٹی فورسز کو دستبردار کیوں کیا گیا۔دوسری جانب او ایل اے نے ایک بیان میں مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔اراکین پارلیمان نے مئی میں او ایل اے کو ٹیگرے پیپلز لیبریشن فرنٹ کے ساتھ دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، جن کے باغی جنگجو شمالی ایتھوپیا میں نومبر سے لڑ رہے ہیں۔حکومت نے او ایل اے پر ملک کے بڑے علاقے اورومیا اور دوسرے بڑے علاقے امہارا میں شہریوں کے قتل عام کا الزام عائد کیا ہے۔وفاقی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ تصادم میں دو نسل پرست گروپ شامل ہیں، جنہوں نے مارچ میں کئی دنوں کی لڑائی میں 300 سے زائد افراد کو قتل کیا تھا۔دوسری جانب دہشت گردوں نے حملوں اور بھیانک قتل کے الزامات کو مسترد کردیا۔رپورٹ کے مطابق یہ تصور کیا جارہا ہے کہ ہزاروں سے کم تعداد رکھنے والی او ایل ا ے اپوزیشن جماعت اورومو لیبریشن فرنٹ سے الگ ہوئی ہے، جس نے کئی سال جلا وطنی میں گزارے لیکن 2018 میں وزیر اعظم ابی احمد کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں ایتھوپیا واپسی کی اجازت دی گئی تھی۔رواں ماہ کے اوائل میں او ایل اے اور ٹی پی ایل ایف نے اعلان کیا تھا کہ ابی احمد اور ان کی اتحادی فورسز کے خلاف مل کر لڑنے کے لیے معاہدہ طے پا گیا ہے۔او ایل اے کے ترجمان نے کہا تھا کہ دو نوں گروپس اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ابی احمد کی’آمریت’ ختم ہونی چاہیے اور وہ خفیہ اطلاعات اور حکمت عملی تشکیل دینے میں تعاون کر رہے ہیں۔حکومت نے معاہدے کو ’تباہ کن اتحاد’ قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں گروپس ملک کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ ایتھو پیا میں 2019 میں نوبل امن ایوارڈ حاصل کرنے والے ابی احمد نے ٹی پی ایل ایف کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ برس نومبر میں فوجی دستے ٹیگرے بھیجے تھے، جس کے بعد سے شمالی ایتھوپیا مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ اقدام وفاقی فوج کے کیمپوں پر ٹی پی ایل ایف کے حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے اور فتح جلد حاصل ہوگی۔لیکن نو ماہ بعد لڑائی قریبی علاقوں افار اور امہارا پھیل چکی ہے اور ایتھوپیا بھر سے فورسز تعینات کی گئی ہیں۔