سری نگر:جموں وکشمیرحکومت نے فی فکزیشن اینڈ ریگولیشن کمیٹی کوقانونی اختیارات تفویض کرنے کیلئے ایک مسودہ تیار کیا ہے جس کوانتظامی کونسل کی منظوری کے بعد باقاعدہ طور نافذ کیا جائے گا۔ متعلقین نے اس مسودے کاخیر مقدم کیاہے اور اُمید ظاہر کی ہے کہ اس مسودے کو منظوری دئیے جانے سے جموں وکشمیرمیں نظام تعلیم کو تجارتی سرگرمیو ں میں بدلنے کی کوششوںکو دھچکالگے گا۔ واضح رہے حکومت نے نئی ایجوکیشن پالیسی اورجموں وکشمیر سکول ایجوکیشن ایکٹ 2002 کے پیش نظر نومبر 2019میں فی فکزیشن اینڈ ریگولیشن کمیٹی کی تشکیل نو عمل لائی اور سابق ہائی کورٹ جج جسٹس مظفر حسین عطار کوکمیٹی کا چیئر پرسن مقرر کرنے کے احکامات صادر کئے جن کی سربراہی میں کمیٹی نے کئی تاریخی حکمنامے جاری کئے تاکہ پرائیویٹ سکولوں کے فیس میں ایک معقولیت لائی جاسکے۔جے کے این ایس کوملی تفصیلات کے مطابق فی فکزیشن اینڈ ریگولیشن کمیٹی نے پرائیویٹ سکولوں سے درخواستیں طلب کیں اور درخواستیں وصول کرنے کیلئے کئی مرتبہ معیاد میں اضافہ کیا ۔کمیٹی کو جموں اورسرینگر کے دفاترکی وساطت سے آخری تاریخ یعنی 31جولائی 2021تک 700سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے500سے زائدا سکولوں کے حق میں فیس مقرر کی گئی جن کی ماہانہ ٹیوشن فیس 1500 روپے سے کم اور سالانہ فیس6ہزا ر روپے سے کم ہے جس کے لئے ڈرافٹ رولز کے تحت چیئرپرسن کے اختیارات دئیے گئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کمیٹی ھٰذاکے چیرپرسن نے سرمائی زون کے قریب قریب تمام سکولوںکا فیس مقرر کیا ہے اور گرمائی زون کے اکثر سکولوں کا فیس بھی مقرر کیا ہے ۔ فیس کی کاپی کو کمیٹی کی ویب سائٹ پر مشتہر کیاگیا ہے جہاں سے والدین اور سکول منتظمین کاپی حاصل کرسکتے ہیں۔ کمیٹی نے باقی درخواستوں کی جانچ بھی شروع کردی ہے جن میں سے متعدد سکولوں کی دستاویزات میں خامیاں پائی گئی ہیں اور کمیٹی نے اس حوالے سے سکولوں کو خامیاں دور کرنے کے ہدایات دی ہیںتاکہ ان سکولوں کا جلد از جلد فیس مقرر کیا جاسکے۔ معلوم ہواہے کہ آنے والے دنوں میں ان سکولوں کافیس مقرر کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں جن کا فیس پندرسو روپے سے زیادہ اورسالانہ فیس چھ ہزار روپے سے زیادہ ہے ۔ ان درخواستوںپر کمیٹی کے اراکین کی موجودگی میں غور کیاجاتاہے اور ان کی رائے کے مطابق ہی احکامات صادر کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ کام کرنے کا یہ طریقہ کا ر ان ڈرافٹ رولز کے عین مطابق ہے جو ریاستی سرکارنے کمیٹی کے کام کاج کے لئے وضع کئے ہیں۔ان ڈرافٹ رولز کو لاڈپارٹمنٹ نے پہلے ہی منظور ی دے دی ہے جس کے بعد ایل جی کے مشیر نے بھی ان رولز کو منظور ی دے دی ہے ۔ معلوم ہواہے کہ ان رولز کو اب حتمی منظوری کے لئے سیکریٹری ایجوکیشن ، ایڈمنسٹریٹیو کونسل میں پیش کررہے ہیں جہاں سے منظوری ملنے کے بعد یہ رولز من وعن نافذ کئے جائیں گے ۔ان رولز کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہی کمیٹی نے کئی تاریخی حکمنامے صادر کئے ہیں جن میں ایڈمیشن فیس پرمکمل پابندی ، سال 2019میں سالانہ فیس اور ٹرانسپورٹ فیس میں مکمل چھوٹ کے احکامات قابل ذکر ہیں۔ کمیٹی نے انہی اختیارات کے تحت سابقہ کمیٹی کے ایک حکمنامہ زیر نمبر ۱بتاریخ 28جنوری 2019کو کالعدم قرار دیا ہے جس کی رو سے پرائیویٹ سکولوں کو ۶فیصدی فیس میں سالانہ اضافہ کرنے کی چھوٹ دی گئی تھی جبکہ ایک ہزار کی ٹیوشن فیس اور ۶ہزار کی سالانہ فیس سے کم والے سکولوںکو چند مبہم شرائط کے ساتھ فیس بڑھانے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔ کمیٹی نے ایسے کئی سکولوں کو بے نقاب کردیا ہے جنہو ںنے اس حکمنامے کا غلط استعمال کرکے فیس میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے ۔ اس حکمنامے کے خلاف والدین کی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا تھالیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسوقت والدین کے احتجاج کا سنجیدہ نوٹس نہیں لیاگیا ۔ واضح رہے چند پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے کمیٹی کے احکامات کو جموں اور سرینگر کی عدالتوں میں چلینج کیا ہے جن کوانہی ڈرافٹ رولز کی بنیاد پر ریاستی انتظامیہ کے وکیل عدالت میں دفاع کررہے ہیں ۔قانونی ماہرین کاکہناہے کہ رولز کی منظوری میں تاخیر کی وجہ سے ریاستی انتظامیہ کی پوزیشن عدالت کے سامنے مضحکہ خیز بن جائے گی او ر اس کی وجہ سے تعلیم کے تاجروںکوقانون کی گرفت سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے ۔والدین اور سکول انتظامیہ سے وابستہ شخصیات نے رولز کی منظوری میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیاہے اور کہاہے کہ اس کی وجہ سے سارامعاملہ کھٹائی میں پڑسکتاہے۔