اقوام متحدہ:یہ 1945 کے اواخر کی بات ہے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہو رہی تھی اور دنیا امن کی تلاش میں تھی۔ ایسے میں، پچاس ملکوں کے نمائندے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں جمع ہوئے۔ 25 اپریل 1945 سے 26 جون تک دو ماہ کے عرصے میں ان نمائندوں نے اقوام متحدہ کا منشور تیار کیا، اس پر دسخط ہوئے اور یوں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا- اس امید کے ساتھ کہ یہ ادارہ آئندہ ایسی کسی عالمی جنگ کو ہونے سے روک سکے گا۔دو عالمی جنگوں کی ہولناکیاں دنیا دیکھ چکی تھی۔ آج 76 سال کے بعد، جب نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں اس کی 76ویں جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، بین الاقوامی امور کے ماہرین کے درمیان اس بات پر تو اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کی دنیا کو آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن، وہ سمجھتے ہیں کے اس میں نہ صرف اصلاحات کی ضرورت ہے، بلکہ اسے زیادہ موثر بنانے کے لئے اس کے رکن بڑے ملکوں کو اپنے ملکی مفادات سے بالاتر ہو کر پوری عالم انسانیت کے مسائل پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر سحر خان امریکہ کے کیٹو انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے قیام کے وقت اقوام متحدہ کا جو بنیادی نصب العین تھا کہ کوئی تیسری جنگ عظیم نہ ہونے پائے، اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یو این کے قیام کا مقصد یقیناً پورا ہوا ہے اور وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب رہی ہے۔ لیکن، جب آج کی دنیا میں مختلف خطوں میں ہونے والی جنگوں پر نظر ڈالی جائے، دنیا میں معاشی بدحالی اور عدم مساوات کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ وہ کامیابیاں حاصل نہیں کر سکی جو اسے حاصل کرنی چاہئیے تھیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکوں کو جس طرح ادارے کی مدد اور اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہئیے اسطرح وہ نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عالمی ادارہ کمزور اور غیر موثر ہوتا جا رہا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بڑی اقوام کو اقوام متحدہ کے حوالے سے نئے معاہدے کی ضرورت ہے۔ ادارے کی زیادہ مدد کرنی چاہئیے اور سب سے بڑھ کر جو اصلاح ضروری ہے۔ اور جو بقول ان کے، ہوگی نہیں وہ یہ کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی ویٹو پاور ختم کردی جائے۔ کیونکہ اس ویٹو کی وجہ سے اقوام متحدہ کے کام کرنے کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے اور ارتکاز اختیار پانچ ملکوں کے پاس رہ جاتا ہے۔ کوئی بات جو ان میں سے کسی بھی ایک ملک کو بہتر نہ لگے وہ اسے ویٹو کر دیتا ہے۔عارف انصار واشنگٹن میں قائم ادارے ‘پولیٹیکٹ’ کے سینئر ریسرچر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا جہاں تک دنیا میں امن اور تنازع کے مسائل ہیں، انسانی بحران کے مسائل ہیں، ان کے سلسلے میں سیکریٹری جنرل نے 76 ویں جنرل اسمبلی کی اپنی تقریر میں اظہار کیا کہ انسانیت اس وقت اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ اقوام متحدہ میں اصلاحات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں کہا کہ اقوام متحدہ کے طریقہ کار میں اصلاحات کے علاوہ سلامتی کونسل میں بھی اصلاحات کی ضرورت پر باتیں کی جا رہی ہیں کہ جس وقت پانچ ملکوں کو ویٹو پاور دی گئی تھی اسوقت کی دنیا مختلف تھی۔ آج کی حقیقتیں بلکل مختلف ہیں۔ اس لئے، اسے بھی تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اصلاحات کی ضرورت ہے بھی اور محسوس بھی کی جارہی ہے، لیکن اصلاحات کی نوعیت کے بارے میں متعلقہ حلقوں میں نہ اتفاق رائے ہے نہ کسی سمت کا تعین ہو سکا ہے۔اعزاز چودھری امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی افادیت، اس کی ضرورت اور اصلاحات کی اہمیت کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ آج بھی بہت اہم ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اسکی اتنی ہی اہمیت ہو گی جس قدر اہم اسے رکن ملک بنائیں گے۔اصلاحات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ اصلاحات کی ضرورت تو ہمیشہ رہتی ہے اور اقوام متحدہ میں تو اس کے لئے طویل عرصے سے کوششیں ہو رہی ہیں، خاص طور سے سلامتی کونسل کے بارے میں عرصے سے کہا جا رہا ہے کہ وہ جمہوری نہیں ہے، ٹرانسپیرنٹ نہیں ہے۔”اس لئے اصلاحات کی ضرورت تو یقیناً ہے۔ لیکن، اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر فوراً اصلاحات نہ ہوں تو پورے ادارے کو غیر متعلق کردیا جائے؛ کیونکہ دنیا کے معاملات کو چلانے کے لئے اقوام متحدہ کے منشور سے بہتر اور کوئی منشور نہیں ہے۔