رواں برس 15 اگست کو طالبان کی طرف سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں افیون کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ افیون کو پراسیس کر کے اس سے ہیروئن بھی بنائی جاتی ہے اور خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ کام افغانستان کے علاوہ پاکستان اور ایران میں بھی ہوتا ہے۔افغانستان کے شمالی صوبہ قندھار میں طالبان کی آمد سے قبل افیون کی فی کلو قیمت 7500 پاکستانی روپے تھی جو اب بڑھ کر 18 سے 25 ہزار پاکستانی روپے فی کلو ہو چکی ہے۔افغان صوبہ قندھار کے شہر حوضِ مدد میں واقع افیون اور ہشیش وغیرہ کی مارکیٹ میں موجود افیون پیدا کرنے والے کسانوں اور تاجروں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ویسے تو موسم، عدم تحفظ، سیاسی بے یقینی اور سرحدوں کی بندش وغیرہ افیون کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بنتی ہیں تاہم وہاں موجود قریب تمام ہی لوگ اس بات سے متفق تھے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا گزشتہ ماہ دیا گیا ایک بیان قیمتوں میں حالیہ اضافے کی اصل وجہ ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے اُس وقت کہا تھا کہ طالبان نہیں چاہتے کہ ملک میں کسی طرح کی منشیات پیدا کی جائیں مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کسانوں کو افیون کی بجائے دیگر فصلوں کی طرف راغب کرنے کے لیے بین الاقوامی مدد کی اشد ضرورت ہے۔اس کے بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ طالبان کے اس روایتی گڑھ سمجھے جانے والے صوبے میں افیون کی کاشت اور منشیات کی خرید وفروخت پر پابندی لگا دی جائے گی۔ اس کے بعد سے خریدار کسی ممکنہ کمی سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مقدار میں افیون خریدنا چاہتے ہیں اور یہی چیز اس نشہ آور مواد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بن گئی ہے۔خیال رہے کہ طالبان نے اپنے گزشتہ دور حکومت کے آخری حصے یعنی سال 2000ء میں افیون کی کاشت پر یہ کہتے ہوئے مکمل پابندی عائد کر دی تھی کہ یہ اسلام میں حرام ہے۔ ساتھ ہی ملک بھر میں کاشت کی گئی افیون کی قریب تمام فصلیں تلف کر دی گئیں۔تاہم سال 2001ء میں جب امریکا نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو اس کے بعدافیون کی کاشت اور اس کی فروخت میں اضافہ ہو گیا حالانکہ مغربی ممالک کی جانب سے متبادل فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی ملین ڈالرز کی امداد بھی فراہم کی گئی۔ ان متبادل فصلوں میں زعفران کی کاشت بھی شامل تھی تاہم افیون کی کاشت کا سلسلہ نہ تھم سکا۔