پٹنہ یونیور سٹی کے شعبہ اردو میں اردو صحافت سلسلہ تقریبات کا آغاز
اردو صحافت کی ابتدائی تاریخ کے متعلق بہت ساری روایات ہیں کبھی ٹیپو سلطان کے’’فوجی اخبار‘‘ تو کبھی ’’مراۃ الاخبار‘‘کو اولیت دی جاتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اردو صحافت کی شروعات باضابطہ’’جام جہاں نما‘‘سے ہی ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر اسرائیل رضا نے اپنے خطبہ صدارت میں کیا۔واضح ہوکہ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے کے تعلق سے سلسلہ تقریبات کا آغاز کیا گیا ہے۔تقریب کی صدارت پروفیسر اسرائیل رضا نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری محمد عطا اللہ نے ادا کی۔تقریب کا آغاز کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے مہمانوں کا استقبال کیا اور غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ اردو کا اردو صحافت سے گہرا تعلق رہا ہے۔ یہاں کے طالب علموں میں بڑی تعداد میں صحافی شامل رہے ہیں۔ شعبے نے اردو صحافت کا ڈپلوما کورس بھی شروع کیا اور یہاں کے نصاب میں اردو صحافت ایک پرچے کے طور پر بھی شامل ہے۔ شعبہ اردو کو اردو صحافت کے دو سو سالہ تقریبات میں حصہ لیتے ہوئے نہ صرف خوشی ہے بلکہ طلبہ و طالبات کے لیے مفید بھی سمجھتا ہے۔پٹنہ یونیورسٹی کے رجسٹرار کرنل کامیش کمار نے شعبہ اردو کو پٹنہ یونیورسٹی کا اچھا شعبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کی عوامی گرفت کمزور ہورہی ہے۔ ضرورت ہے کہ شعبہ اپنے نصاب میں اردو کو ہنر پروگراموں سے جوڑے تاکہ طلبہ عملی طور پر ہنر مند ہو کر سماج کہ کام آئیں۔یونیورسٹی کے فائنا نس افسر سید مظفر حسین نے اردو زبان سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی شیرینی اور لطافت کا اعتراف کیا اور کہا کہ مجھے اردو شعرو ادب سے خصوصی دلچسپی ہے اور اس کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔انہوں نے شعبے کو یونیورسٹی کی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور بچوں کو محنت کے ساتھ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔معروف صحافی اورروز نامہ انقلاب کے مدیر جناب احمد جاوید نے اردو صحافت کی طاقت کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ روز اول سے اردو زبان اپنی طاقت اور اثر کیاعتبار سے کاروبار کرنے والوں کو متو جہ کرتی رہی ہے۔سدا سکھ لال اور منشی ہری ہر دت نے اس کاروبار کو نفع میں چلا کر نہ صرف اس کی اہمیت قائم کی بلکہ آغاز صحافت سے ہی مشترکہ تہذیب اور مشترکہ قوت کو اردو صحافت کی خمیر میں شامل کر دیا۔انہوں نے صحافت کے ذریعہ اصل ہندوستان کو آگے بڑھایا اس لیے آج ہم اس قسم کے جشن کے ذریعہ ان صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے شعبہ اردو سے اپنی جذباتی وابستگی کا ظہار کرتے ہوئے شعبے کو مبارکباد دی کہ یہاں سے جشن اردو صحافت تقریبات کا آغاز ہو رہا ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں اردو صحافت کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اسے تین ادوار میں تقسیم کیا۔جس میں مولوی محمد باقر،منشی نول کشور،مولانا ظفر علی خاں،حسرت موہانی،مولانا محمد علی جوہر اور مولانا عثمان غنی وغیرہ روشن مینارکی طرح نظر آتے ہیں۔ان لوگوں نے اردو صحافت کا ایک معیار قائم کیا۔موجودہ صورت حال زبان و بیان کے اعتبار سے اگر چہ بہت بہتر نہیں ہے مگر مجھے یقین ہے کہ اس کا مستقبل روشن،تابناک اور بلند ہوگا۔ضرورت ہے کہ اس کی طرف سنجیدگی سے غور کیا جائیاور کمیاں دور کرنے کی تدبیر کی جائے۔شعبہ اردو سینٹرل یونیورسٹی آف ساوتھ بہار کے استاذ ڈاکٹر احمد کفیل نے کہا کہ سماج کو صحیح راہ دکھانے کے لیے صحافت ضروری ہے۔انہوں نے اردو صحافت کی ابتدائی تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور دہلی اردو اخبار کو اردو صحافت کا معیار متعین کرنے والا پہلا اخبار قرار دیا۔شعبہ اردو عالیہ یونیورسٹی،کلکتہ کی صدر شعبہ ڈاکٹر درخشاں زریں نے شعبے سے اپنی وابستگی کا جذباتی اظہار کرتے ہوئے طلبہ و طالبات کو محنت،محبت اور مسلسل عمل کی تلقین دی تا کہ وہ بھی ان کی طرح کامیاب ہوکر شعبے اور ملک کا نام روشن کر سکیں۔اس موقع پر شعبہ اردو کے سابق طالب علم معروف صحافی اور سیاستداں ڈاکٹر خالد رشید صبا کے انتقال پر دعائے مغفر ت بھی کی گئی۔شعبہ اردو کے استاذ ڈاکٹر جاوید حیات نے شکریے کا فریضہ انجام دیا۔ تقریب میں بڑی تعداد میں عظیم آباد کی اہم شخصیات مثلاً پروفیسر سعید عالم،ڈاکٹر سرور عالم ندوی، نوشاد احمد، شاہ فیض الرحمن، مسعود احمد کاظمی، محمد صادق حسین، انوار اللہ، نوا ب عتیق الزماں، فیضان ضیائی، حذیفہ شکیل، ساجدپرویز، محمد شعبان، انوارالہدی، ضیا ا لحسن قاسمی، زر نگار یاسمین، منہاج الدین، آصف نواز اور نعمت شمع وغیر کے علاوہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور شعبہ اردو کے طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔