افغانستان کے شہر قندھار کی ایک امام بارگاہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران بم دھماکے کے نتیجے میں 33 افراد جاں بحق اور 74 سے زائد زخمی ہوگئے۔خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان عہدیداروں نے بتایا کہ شمالی افغانستان کے شہر قندھار میں نماز جمعہ کے دوران خود کش حملہ کیا گیا۔طالبان کے ایک مقامی عہدیدار نے کہا کہ ہمیں ابتدائی طور پر موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حملہ خود کش تھا، جس نے مسجد کے اندرخود کو اڑا دیا اور مزید تفتیش کی جارہی ہے۔شہر کے مرکزی میر وائس ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ ’میروائس ہسپتال میں 33 لاشیں اور 74 زخمیوں کو لایا گیا‘۔ابتدائی طور پر دھماکے کی نوعیت معلوم نہیں ہوسکی لیکن یہ شمالی شہر قندوز کی امام بارگاہ میں خودکش بم دھماکے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ہوا جس کی ذمہ داری ’داعش‘ نے قبول کی تھی۔افغان وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے کہا کہ ’دھماکے سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ حکام، دھماکے کی تفصیلات اکٹھی کر رہے ہیں۔ترجمان نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ہمیں یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ قندھار شہر کے پہلے ضلع میں ایک امام بارگاہ میں دھماکا ہوا جس میں ہمارے متعدد ہم وطن جاں بحق و زخمی ہوئے‘۔انہوں نے کہا کہ ’اسلامی امارات کی خصوصی فورسز دھماکے کی نوعیت معلوم کرنے اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے جائے وقوع پر پہنچ گئی ہیں‘۔سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں بہت سے افراد کو امام بارگاہ کے فرش پر دیکھا جاسکتا ہے جو شدید زخمی ہیں۔عینی شاہد نے بتایا کہ انہوں نے تین دھماکے سنے جن میں سے پہلا امام بارگاہ کے مرکزی دروازے، دوسرا جنوبی دروازے جبکہ تیسرا وضو خانے میں ہوا۔صوبائی کونسل کے سابق رکن نعمت اللہ وفا نے کہا کہ دھماکا امام بارگاہ میں ہوا جس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے، تاحال کسی تنظیم نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔واضح رہے کہ طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے مسجد پر ہونے والا یہ تیسرا دھماکا ہے۔قبل ازیں گزشتہ جمعہ کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز کی ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 55 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔اس دھماکے میں بھی اہلِ تشیع برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔داعش کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے کئی حملے کیے جاچکے ہیں اور ان کے علاوہ افغانستان میں دیگر برادریوں اور مکتب فکر کے افراد کو بھی نشانہ بنا یا گیا ہے۔اس سے قبل 3 اکتوبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔بم دھماکا کابل کی عیدگاہ مسجد کے دروازے کے قریب ہوا تھا جہاں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کا تعزیتی اجلاس ہو رہا تھا۔یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ طالبان نے 15اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا جس کے بعد سے انہیں اندرونی طور پر داعش کے خطرے کا سامنا ہے۔تاہم حال ہی میں ایک بیان میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ امارت اسلامیہ ان کا تعاقب کررہی ہے اور ہماری افواج داعش کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں ہم نے داعش سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کے کئی محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے جبکہ ان کے کئی حملوں کو بے اثر کر دیا ہے۔