خارطوم:سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ہفتے کے روز صدارتی محل کے سامنے ہزاروں افراد نے فوج کے حق میں مظاہرہ کیا ہے سوڈان کی عبوری حکومت کے خلاف نعرے بازی کی ہے۔ وہ ‘بھوک کی حکومت مردہ باد کے نعرے لگارہے تھے۔ سوڈان میں 2019ء میں سابق مطلق العنان صدرعمرالبشیر کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے فوج اور مختلف سویلین گروپوں پر مشتمل حکومت ملک کا نظم ونسق چلا رہی ہے لیکن ان کے درمیان بہت سے امور پرشدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔اس وقت اس کو گذشتہ دوسال کے دوران میں سب سے بڑے سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ گذشتہ ماہ ستمبر میں عمرالبشیر کے وفادارفوجیوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کی تھی۔اس کے بعد فوجی رہنما آزادی اور تبدیلی کی قوتوں (فورسزآف فریڈم اینڈ چینج،ایف ایف سی) پر مشتمل اتحاد اوراس کی سویلین کابینہ سے اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔تاہم سویلین رہ نماؤں نے فوجی قیادت پراقتدار پر قبضہ کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔ ایف ایف سی میں شامل ایک فوجی اتحادی دھڑے بشمول بشیر کے خلاف بغاوت کرنے والے مسلح گروپوں نے ہفتے کے روز احتجاجی مظاہرے کی اپیل کی تھی۔ ریاست خرطوم کے گورنر ایمن خالد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دارالحکومت میں مظاہرے سے قبل ایک نامعلوم مسلح گروپ کے ارکان نے سرکاری عمارتوں کے اردگرد رکھی حفاظتی رکاوٹیں ہٹادی تھیں اور پولیس اور سیکورٹی فورسزکے اہلکاروں کواپنے کام پر جانے سے روک دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سول اور فوجی قیادت کے درمیان تنازع کی جڑانصاف، فوج کی تشکیل نو اور سابق بشیرحکومت کے مالیاتی نظم ونسق کے خاتمے سے متعلق امور ہیں۔ سوڈان کے نگران وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے جمعہ کو ایک تقریرمیں بحران سے نکلنے کا لائحہ عمل پیش کیا تھا اورخبردارکیا تھاکہ مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں ملک کا مستقبل داؤپرلگ جائے گا۔