قازقستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے پرتشدد واقعات اور فسادات کے دوران 160 سے زائد افراد ہلاک اور 500 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔خبر رساں ایجنسی کے مطابق مقامی میڈیا نے وزارت داخلہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی اندازے کے مطابق ان واقعات میں تقریباً 175 ملین یویوز(198ملین امریکی ڈالرز) مالیت کی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ 100 سے زیادہ کاروبار اور بینکس پر حملہ کر کے لوٹا گیا اور 400 کے قریب گاڑیوں کو تباہ کیا گیا۔روسی خبر رساں ایجنسی اسپوٹکن نے وزارت صحت کا حوالہ دیتےہوئے بتایا کہ مجموعی طور پر دو بچوں سمیت 164 افراد پرتشدد واقعات کے دران قتل کیے گئے۔ان کا کہنا ہے کہ 103 افراد قازقستان کے اہم شہر الماتی میں مارے گئے جو ان فسادات کا مرکز ہے۔وزیرداخلہ ارلان ترگمبایوف نے کہا کہ آج صورتحال مستحکم ہے تاہم ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے انسداد دہشت گردی کا آپریشن جاری ہے۔وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر 5135افراد کو بد امنی سمیت مختلف مقدمات میں پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔تیل کی دولت سے مالامال ایک کروڑ 90لاکھ آبادی کے ملک کو ان پرتشدد واقعات نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ایک دن قبل صدر کسیم جومارٹ نے بدامنی اور تشدد میں ملوث افراد کو وارننگ دیے بغیر گولی مارنے کے احکامات جاری کیے تھے۔تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں احتجاج اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے اور ملک بدامنی کی ل؛لپیٹ میں ہے۔صدر کسیم جومارٹ کی درخواست پر روس کی زیر قیادت بننے والی کلیکٹو سیکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن فورسز کو امن بحال کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔قازقستان روس کا قریبی اتحادی ہے اور روس نے امید ظاہر کی ہے کہ قازقستان اپنے داخلی مسائل جلد حل کر لے گا تاہم انہوں نے دیگر ممالک کو خبردار کیا کہ وہ قازقستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔قازقستان بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دباؤ سے نمٹ رہا ہے، افراط زر کی شرح سال ہا سال بنیادوں پر 9فیصد رہی جو گزشتہ پانچ سال کے دوران بلند ترین سطح ہے۔