ایران نے طالبان حکومت کے نمائندوں سے مثبت مذاکرات کے باوجود واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے ابھی تک طالبان کی افغان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اتوار کو طالبان حکومت کے وفد نے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی زیر قیادت ایرانی ہم منصب وزیر خارجہ حسین عبداللہ حیان سے ملاقات کی۔طالبان کی جانب سے 15 اگست کو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ طالبان کے وفد کا اس طرح کا پہلا دورہ ایران تھا جس میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے مختلف امور خصوصاً نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے کہا کہ اتوار کو طالبان کے نمائندوں سے ہونے والے اعلیٰ سطح کے مذاکرات بہت مثبت رہے تاہم ایران ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا کہ وہ افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے۔انہوں نے پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے موجودہ حالات پر ایران کو تشویش ہے اور افغان وفد کا دورہ انہی تحفظات کا نتیجہ تھا۔نئی طالبان حکومت کے حوالے سے ایران کا موقف ہے کہ وہ افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کی صورت میں ہی اسے تسلیم کریں گے۔نئی حکومت کے افغانستان میں قیام کے بعد سے دونوں ممالک مسلسل رابطے میں ہیں اور نمائندہ خصوصی حسن کاظمی حالیہ مہینوں میں افغانستان کے کئی دورے کر چکے ہیں۔اتوار کو ہونے والی اس ملاقات سے قبل دونوں فریقین نے کہا تھا کہ وہ اس دوران سیاسی، معاشی، ٹرانزٹ اور مہاجرین کے مسائل کو حل کریں گے۔ایران کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر خارجہ نے ملاقات میں افغانستان کے حوالے سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور افغان عوام کی مدد اور معیشت کی بحالی کے لیے انسانی بنیادوں پر پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ایران انسانی امداد بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے گا اور افغانستان کے باہمت عوام یہ ثابت کر چکے ہیں کہ کوئی بھی بیرونی طاقت ان پر قبضہ اور حکومت نہیں کر سکتی۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایران اور افغانستان کی سرحدی فورسز میں جھڑپ ہوئی تھی تاہم بعد میں دونوں فریقین نے اس کو ایک غلط فہمی قرار دیا تھا۔