ناروے کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اوسلو میں اگلے ہفتے سرکاری عہدیداروں اور افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں سے مذاکرات کے لیے طالبان وفد کی آمد متوقع ہے۔خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ناروے کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ مذکورہ دورہ اتوار سے منگل تک شیڈول ہے اور ‘طالبان ناروے کے حکام اور متعدد اتحادی ممالک کے عہدیداروں سے ملاقات کریں گے، جس کا مقصد افغانستان میں انسانی صورت حال اور انسانی حقوق کے حوالے سے مذاکرات کرنا ہے۔بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اتحادی ممالک میں سے کون شریک ہوں گے لیکن ناروے کے اخبار وی جی نے رپورٹ میں بتایا کہ ان میں برطانیہ، یورپی یونین، فرانس، جرمنی، اٹلی اور امریکا شامل ہوں گے۔ناروے کی وزیر خارجہ اینیکن ہوئیٹفیلڈٹ نے کہا کہ ‘ہمیں افغانستان کی سنگین صورت حال پر تشویش ہے، جہاں لاکھوں افراد کو بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘افغانستان میں عوام کی مدد کے لیے یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری اور معاشرے کے مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے افغانوں کو طالبان کے ساتھ بات کی جائے۔نارویجن وزیرخارجہ نے بتایا کہ ناروے ان توقعات کے حوالے سے واضح ہے خاص کر لڑکیوں کی تعلیم اور انسانی حقوق کے بارے میں واضح ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ مذاکرات کا مطلب طالبان کو جواز بخشنا یا تسلیم کرنا نہیں ہے۔اینیکن ہوئیٹفیلڈٹ نے کہا کہ ‘ہمیں ملک کے ڈی فیکٹو حکام سے بات کرنی چاہیے، ہم سیاسی صورت حال کے پیش نظر بدترین انسانی بحران پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں’۔خیال رہے کہ طالبان نے گزشتہ برس اگست میں غیرملکی افواج کی بے دخلی کے بعد افغانستان کا نظم و نسق سنبھالا تھا جبکہ 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر حملوں کے بعد 2001 کے اواخر میں امریکا کی سربراہی میں بین الاقوامی افواج نے اس وقت کے حکمران طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لیے افغانستان میں مداخلت کی تھی۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں انسانی صورت حال مزید گھمبیر صورت حال اختیار کرچکی ہے، بین الاقوامی امداد اچانک بند ہوگئی اور امریکا نے افغانستان کے مرکزی بینک میں 9.5 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے تھے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2 کروڑ 30 لاکھ افراد یا افغانستان کی آبادی کا 55 فیصد کو خطرات کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ نے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں درپیش بحران کے خاتمے کے لیے عطیات دینے والے ممالک سے 5 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔