نئی دہلی، 16 فروری:سپریم کورٹ نے مسلح افواج کو ‘ون رینک ون پنشن (او ایم او پی) پر مرکزی حکومت کے مبینہ ڈھل مل رویے پربدھ کوسوال کھڑاکیااور پوچھا کہ اس اسکیم سے فوجیوں کو کیا فائدہ دیا گیا۔جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ نے مرکزی حکومت سے کہا کہ وہ بتائے کہ او آر او پی کو کیسے نافذ کیا گیا اور اس سے فوجیوں کو کیا فوائد دیے گئے۔ بنچ نے کہا کہ درخواست گزار سابق فوجیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اوآراوپی کو موڈیفائڈ ایشیورڈ کیریئر پروگریس (ایم اے سی پی) سے جوڑ کر، حکومت نے فوجیوں کے فوائد کوکافی حد تک کم کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے ’اوآراوپی‘ اسکیم اپنے مقصد سے بھٹک گئی۔سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے یہ اعداد و شمار پیش کرنے کو کہا کہ ایم اے سی پی کب پیش کیا گیا، کتنے لوگوں کو اس اسکیم کا فائدہ ملا اور کتنے لوگ او آر او پی کا فائدہ حاصل کرنے کے اہل تھے۔انڈین ایکس سرویسمین موومنٹ (آئی ای ایس ایم) کی طرف سے پیش سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے دلیل دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مرکز کے دلائل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اوآراوپی دینے کے خواہش مند نہیں ہیں۔عرضی گزاروں نے مرکزی حکومت کے ذریعہ اوآراوپی سے متعلق7 نومبر 2015 کو جاری نوٹیفکیشن پر سوالات اٹھائے ہیں۔ درخواست گزاروں نے حکومت کے فیصلے کویہ کہتے ہوئے منامنا اور بدنیتی پر مبنی قرار دیاہے کہ یہ ’ایک طبقے کے اندر، ایک طبقہ پیداکرتا ہے‘ اور ایک رینک میں الگ الگ پنشن دیتا ہے۔ (یو این آئی)