چین کے صدر شی جن پنگ نے روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ورچوئل سربراہی اجلاس سے قبل ایک تقریر میں فوجی تعلقات میں ’توسیع‘ کے خلاف خبردار کیا۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ برکس کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے بااثر کلب کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں عالمی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ اور دنیا کی مجموعی ملکی پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے۔اس کے تین ارکان چین، بھارت اور جنوبی افریقہ نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد پر ووٹنگ سے گریز کیا۔شی جن پنگ نے برکس بزنس فورم کو بتایا کہ یوکرین کا بحران ہم سب کے لیے ایک پیغام ہے کہ اب ہمیں جاگ جانا چاہیے اور خبردار کیا کہ اپنی سلامتی کے حصول کی خواہش فوجی اتحاد میں توسیع اور کسی دوسرے ممالک کی سلامتی کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔چین اور بھارت کے روس سے مضبوط فوجی روابط ہیں اور وہ اس سے تیل اور گیس کی بڑی مقدار خریدتے ہیں۔گزشتہ ہفتے ایک کال میں شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کو یقین دلایا کہ چین ماسکو کی خودمختاری اور سلامتی کے بنیادی مفادات کی حمایت کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ امریکا چین کو خبردار کرتا رہا ہے کہ وہ تاریخ کے غلط رخ پر کھڑا ہے۔براعظم سے باہر سفارتی اثر و رسوخ رکھنے والے چند افریقی ممالک میں سے ایک جنوبی افریقہ نے بھی روسی فوجی کارروائی کی مذمت نہیں کی۔شی جن پنگ نے تقریر میں روس پر امریکی اور یورپی یونین کی پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پابندیاں دو دھاری تلوار ہیں۔گروپ آف سیون (جی 7) ممالک کے رہنما آئندہ ہفتے جرمنی میں ملاقات کریں گے جس میں روس کے خلاف پابندیوں میں اضافے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔برکس سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب روسی افواج چار ماہ قبل یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد اب ملک کے مشرقی حصے میں یلغار کررہی ہیں۔چین اور بھارت دونوں نے روس سے خام تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے جس سے مغربی ممالک کی طرف سے روسی توانائی کی خریداری میں کمی سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے میں مدد ملی ہے۔ماضی میں سرد جنگ میں بدترین حریف تصور کیے جانے والے چین اور روس نے حالیہ برسوں میں تعاون کو بڑھایا ہے۔صدر پیوٹن یوکرین پر حملے سے چند روز قبل فروری میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے بیجنگ میں تھے۔مئی کے اواخر میں امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ جاپان کے موقع پر بیجنگ اور ماسکو نے بحیرہ جاپان اور مشرقی بحیرہ چین کے اوپر بمبار طیارے اڑا کر دونوں ملکوں کے مضبوط فوجی تعلقات کا اشارہ دیا تھا۔چین نے مئی میں برکس وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کہا تھا کہ وہ چاہتا ہے کہ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں اس گروپ میں شامل ہوں البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا نئے اراکین کو مدعو کیا گیا ہے یا نہیں۔