میانمار کے سرکاری میڈیا اور چشم دید گواہ نے کہا ہے کہ میانمار کی سب سے بڑی جیل میں پارسل کے اندر موجود بم پھٹنے کے بعد ہونے والے تصادم میں فوجیوں کی فائرنگ میں کم از کم 8 افراد مارے گئے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکومت مخالف مسلح گروپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک پیغام میں انسین جیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری جنتا چیف من آنگ ہلینگ کے خلاف جوابی انتقامی کارروائی ہے۔
جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آج برما کی اسپیشل ٹاسک ایجنسی (ایس ٹی اے) نے جیل کے سربراہ کوقتل کرنے کے لیے 2 حملے کیے، ہم اپنے انقلابی کارکنوں اور ساتھیوں پر مسلسل ڈھائے جانے والے مظالم پر من آنگ ہلینگ اور جیل کے افسران کے خلاف جوابی انتقامی کارروائی کر رہے ہیں۔
سرکاری نشریاتی ادرے ایم آر ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ دھماکے پارسل کے اندر بارودی مواد کی وجہ سے ہوئے جس میں 3 جیل افسران، جیل کے دورے پر موجود 5 افراد ہلاک اور 18 افراد زخمی ہوئے۔
واقعہ سے متعلق تفصیل بتاتے ہوئے ایک زخمی عینی شاہد نے بتایا کہ پارسل موصول کرنے والے کاؤنٹر پر بم پھٹنے کے بعد فائرنگ بھی ہوئی، عینی شاہد نے بتایا کہ دھماکوں کے جواب میں جیل میں موجود فوجیوں نے فائرنگ کی۔
میانمار اس وقت سے افراتفری کا شکار ہے جب کہ فوج نے نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی کی قیادت میں بننے والی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اختلاف رائے کرنے والوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ میانمار کی فوجی عدالت نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کو 2020 کے انتخابات میں انتخابی دھاندلیوں کے الزام میں ’سخت مشقت کے ساتھ‘ 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، بند عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی اس سزا کے بعد انہیں مجموعی طور پر 20 سال جیل کی قید کا سامنا ہے۔
فوج نے نومبر 2020 کے انتخابات کے بڑے پیمانے پر دوران ووٹوں کی دھوکا دہی کا الزام لگایا، جس میں آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔
فوج نے اس کے بعد سے انتخابات کا نتیجہ منسوخ کر رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس نے ووٹروں کی دھوکہ دہی کے ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ واقعات کو بے نقاب کیا ہے۔
فوج کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے کہا تھا کہ فوج آنگ سان سوچی کے ساتھ ’نرم‘ رویہ اختیار کر رہی ہے اور ان کے خلاف ’زیادہ سنجیدہ اقدامات‘ کر سکتی تھی۔