برطانیہ کی سخت گیر وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے حکومت سے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد وزیر اعظم لز ٹرس کی بقا کے امکانات پر مزید شکوک پیدا ہو گئے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سویلا بریورمین نے کہا کہ انہوں نے اپنے ساتھی کو سرکاری دستاویز بھیجنے کے لیے اپنا ذاتی ای میل استعمال کرنے کے بعد استعفیٰ دیا۔
اس اقدام کو سرکاری قواعد کی تکنیکی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انہوں نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ ’میں نے غلطی کی ہے جس کی ذمہ داری قبول کرتی ہوں، میں استعفیٰ دے رہی ہوں‘۔
سویلا بریورمین نے کہا کہ انہیں ’سنگین خدشات‘ ہیں کہ وزیر اعظم منشور میں کیے گئے وعدوں کو توڑ رہی ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ ’یہ دکھاوا کرنا کہ ہم نے غلطیاں نہیں کی ہیں، ایسا برتاؤ کرنا جیسے ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا کہ ہم نے انہیں بنایا ہے اور یہ امید کرنا کہ چیزیں جادوئی طور پر ٹھیک ہو جائیں گی، یہ سنجیدہ سیاست نہیں ہے۔‘
بریورمین نے ہوم سیکریٹری کے عہدے پر صرف 43 دن گزارے اور ان کی رخصتی حکومت کے گزشتہ ماہ کے ٹیکس کٹوتی کے بجٹ سے پیدا ہونے والا تازہ ترین بحران ہے۔
چھوڑ کر جانے والی نہیں، لڑنے والوں میں سے ہوں، لز ٹرس
دوسری جانب افراتفری کے باوجود وزیراعظم لز ٹرس نے عہد کیا کہ وہ اپنے فلیگ شپ پلان کو ترک کرنے کے بعد اپنے پہلے پارلیمانی سوالات میں ناراض قانون سازوں کا سامنا کرتے ہوئے استعفیٰ نہیں دیں گی۔
حزب اختلاف کے لیبر لیڈر کیئر اسٹارمر نے ہاؤس آف کامنز سے پوچھا کہ ’ایک ایسے وزیر اعظم کا کیا فائدہ جس کے وعدے ایک ہفتہ بھی پورے نہیں ہوتے؟‘ وہ اب تک یہاں کیوں ہیں؟۔
جس کے جواب میں لز ٹرس نے کہا کہ میں لڑنے والی ہوں چھوڑ کر جانے والوں میں سے نہیں، میں وہ فرد ہوں جو سامنے آنے کے لیے تیار ہوں، میں سخت فیصلے لینے کے لیے تیار ہوں۔
البتہ اس دوران ان کی اپنی کنزرویٹو بینچوں پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، نئے وزیر خزانہ جیریمی ہنٹ کی جانب سے لز ٹرس کے ٹیکس منصوبوں کو ذلت آمیز دھچکا پہنچانے کے 48 گھنٹے سے بھی کم وقت میں یہ اجلاس ہوا، وہ پارلیمنٹ میں ان کے پاس بیٹھے، ان کے جوابات پر سر ہلاتے رہے۔
کیئر اسٹارمر نے ’برطانوی عوام پر ایک اقتصادی تجربہ‘ کرنے کے لیے وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ انچارج نہیں ہیں تو ان کا احتساب کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘ کیوں کہ کنزرویٹو پارٹی کے کم از کم پانچ ارکان پارلیمنٹ پہلے ہی عوامی طور پر لز ٹرس کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
سروے سے پتا چلتا ہے کہ لز ٹرس کی ذاتی اور پارٹی کی درجہ بندی میں کمی آئی ہے، اس ضمن میں یو گو نے کہا کہ وہ اب تک کی سب سے زیادہ غیر مقبول رہنما بن گئی ہیں۔’
پارٹی ممبران کے ایک الگ سروے سے پتا چلا کہ انہیں ٹوری لیڈر اور وزیر اعظم منتخب کرنے کے دو ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد اکثریت اب سوچتی ہے کہ انہیں جانا چاہیے۔