متحدہ عرب امارات کے میڈیا آفس نے بتایا ہے کہ دبئی کے مرکزی بندرگاہ میں دھماکے کے بعد کنٹینر جہاز پر لگی آگ پر قابو پالیا گیا ہے جبکہ واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق دھماکے کی وجہ تاحال سامنے نہیں آسکی ہے۔جائے وقوع کے قریب رہنے والے کم از کم 3 افراد نے بتایا کہ واقعے کے نتیجے میں گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے لرز گئے۔دبئی میڈیا آفس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’جبل علی بندرگاہ پر جہاز پر موجود ایک کنٹینر کے اندر دھماکے کے باعث لگی آگ پر قابو پالیا گیا ہے‘۔آفس نے ایک اور پوسٹ میں مزید بتایا کہ جہاز بندرگاہ پر لگنے کی تیاری کر رہا تھا۔اس پوسٹ کے ساتھ فائر فائٹرز کی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں جس میں ایک بڑے جہاز پر آتشزدگی سے فائر فائٹرز کو نمٹتے ہوئے دکھایا گیا۔دبئی پولیس نے بتایا کہ جہاز پر موجود 130 کنٹینرز میں سے تین میں آتش گیر مادے تھے اور جہاز میں عملے کے 14 افراد موجود تھے۔جائے وقوع پر موجود اے ایف پی کے نمائندے نے بتایا کہ ایک ہیلی کاپٹر مسلسل اس بندرگاہ کا مسلسل چکر لگا رہا تھا۔امریکی بندرگاہ ریسرچ سروس کے مطابق یہ بندرگاہ طیارہ بردار بحری بیڑوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور 2017 میں امریکا سے باہر امریکی بحریہ کے زیر استعمال مصروف ترین بندرگاہ تھا۔دبئی میڈیا آفس کے مطابق پورٹ اتھارٹی نے کہا ہے کہ وہ بندرگاہ میں بحری جہازوں کی معمول کی نقل و حرکت کو بغیر کسی مداخلت کے جاری رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھا رہا ہے۔اس طرح کے واقعات انتہائی محفوظ خلیج امارات میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔جائے وقوع کے نزدیک رہائش پذیر ایک انٹرن کلیمنس لیفکس کا کہنا تھا کہ میں اپنی بالکونی سے باہر دیکھ رہا تھا، میرے دوست نے سورج کی روشنی کی طرح کا زرد رنگ دیکھا۔جبل علی بندرگاہ کے قریب دبئی کے ضلع مرینہ کے رہائشی نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے ’کھڑکیوں کو لرزتے ہوئے دیکھا‘۔انہوں نے کہا کہ ’میں یہاں 15 سال سے مقیم ہوں اور یہ پہلی بار ہے جب میں نے ایسا دیکھا اور سنا ہے‘۔جبل علی فری زون (جافا) میں قائم 8 ہزار کمپنیاں ہیں جنہوں نے گزشتہ سال دبئی کی مجموعی مقامی مصنوعات میں 23 فیصد حصہ ڈالا، یہ مشرق وسطٰی کا سب سے بڑا تجارتی زون ہے۔