اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تفتیش کار نے کہا ہے کہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں یہودی بستیوں اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تفتیش کاروں نے ممالک سے اسرائیل کو اس کے ‘غیر قانونی قبضےکے لیے قیمت ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے علاقے میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ مائیکل لنک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس سے خطاب کیا ، جس کا اسرائیل نے بائیکاٹ کیا تھا، اسرائیل اس کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ‘ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بستیوں میں اسرائیلی جنگی جرم ثابت ہوتا ہے’۔ مائیکل لنک نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے آزاد بستیوں کو مقبوضات میں تبدیل کرنے کی مکمل پابندی کی خلاف ورزی ہے جس کی رو سے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے قائم کردہ آئین کے تحت جنگی جرم کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔مائیکل لنک نے بتایا کہ ‘میں آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں کہ رپورٹ کے نتائج بین الاقوامی برادری کو پابند کرتی ہے کہ وہ اسرائیل پر یہ واضح کردے کہ اس کا غیر قانونی قبضہ اور اس سے بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی رائے سے انکار اب لاگت سے پاک نہیں ہوسکتا ہے۔بہت سے ممالک بستیوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر غور کرتے ہیں۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے اسرائیلی مشن نے ایک بیان میں مائیکل لنک کی رپورٹ کو ‘اسرائیل کے خلاف یکطرفہ اور متعصبانہ’ قرار دیتے ہوئے ان پر فلسطینی اتھارٹی اور غزہ کے حکمران حماس کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا۔مائیکل لنک نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے بدھ کے روز مغربی کنارے کے ایک گاؤں میں بیڈوین خیموں کے مکانوں کو مسمار کرنے کے نتیجے میں رہائشیوں کو کھانا یا پانی نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ بستیوں کے تحفظ کے ساتھ فلسطین کی زمینوں پر قبضہ کرنا مغربی کنارے پر اسرائیل کی حقیقت واضح کردیتی ہے۔جنیوا میں اقوام متحدہ میں یورپی یونین کے سفیر لوٹے نوڈسن نے کہا کہ اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘جبری طور پر منتقلی، بے دخلی، مسمار کرنے اور مکانات ضبط کرنے جیسے اقدامات سے پہلے ہی تناؤ کا ماحول بڑھ جائے گا۔۔ 6 مارچ کو بین الاقوامی فوجداری عدالت نے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی باضابطہ تحقیقات کا آغاز کردیا تھا۔ عالمی عدالت کے اس اقدام کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ‘انسداد یہودیت کا نچوڑ بتایا جبکہ فلسطینی حکام نے اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ جون 2014 سے چاروں طرف سے بند غزہ کی پٹی کی صورتحال کی ‘فوری اور ضروری’ تحقیقات کے طور پر آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر فاتو بنسودا کے فیصلے کو سراہا تھا۔اس اقدام سے ہیگ میں قائم ٹربیونل، جو اسرائیل اور اس کی حلیف امریکا کی طرف سے مسلسل تنقید کا سامنا کرتا رہتا ہے، کو دنیا کے ایک انتہائی مشکل تنازع اور خطرے میں ڈال دیا ہے۔