برطانوی وزیر دفاع بین ویلیس کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا تو برطانیہ ان کے ساتھ کام کرے گا، تاہم انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی صورت میں ان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نظر ثانی کی جائے گی۔برطانوی وزیر دفاع بین ویلیس نے روزنامہ ٹیلی گراف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا،”حکومت کی باگ ڈور خواہ جس کسی کے بھی ہاتھ میں ہو، اگر وہ بعض بین الاقوامی ضابطوں کی پاسداری کرتی ہے تو برطانوی حکومت اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔” انہوں نے تاہم متنبہ کیا،”اگر وہ (طالبان) انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہیں تو برطانیہ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے گا۔“ سن 1996سے سن 2001 کے درمیان افغانستان میں آہنی ہاتھوں کے ساتھ حکمرانی کرنے والے طالبان کابل میں مغربی ملکوں کی حمایت سے قائم حکومت کو معزول کرنے کے لیے گزشتہ بیس برسوں سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے بیشتر اتحادی ممالک افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں اورستمبر تک ان کا انخلاء مکمل ہوجائے گا۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیا ن شدید جنگ ہو رہی ہے اور عسکریت پسندوں نے بہت سے علاقوں پر قبضے کرلیے ہیں اور بڑے شہروں کے گرد محاصرہ کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی طالبان کے ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوجانے کے قوی امکانات ہیں۔ یہ فیصلہ بہر حال متنازع ہوگا برطانوی وزیر دفاع ویلیس نے تسلیم کیا کہ برطانیہ کا طالبان کے ساتھ کام کرنا ایک متنازع معاملہ ہوگا۔ انہوں نے کہا،”وہ (طالبان) اس بات کے لیے بیتاب ہیں کہ انہیں بین الاقوامی طورپر تسلیم کرلیا جائے۔ انہیں مالی امداد اور ملک کی تعمیر کے لیے تعاون کی ضرورت ہوگی اور آپ کسی ایسی تنظیم کی مدد نہیں کر سکتے جس نے دہشت گردی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔” ویلیس کامزید کہنا تھا ”آپ کو امن کے لیے ایک شریک کار کی ضرورت ہوگی ورنہ آپ کے الگ تھلگ پڑ جانے کا خطرہ ہے۔ الگ تھلگ پڑ جانے سے وہ پھر وہیں چلے جائیں گے جہاں پچھلی بار پہنچ گئے تھے۔” برطانوی وزیر دفاع نے طالبان اور افغان صدر سے برسوں سے جنگ سے تباہ حال ملک کے استحکام کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی۔ خیال رہے کہ افغانستان کے سینیئر رہنما طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اس ہفتے دوحہ روانہ ہو رہے ہیں۔ طالبان نے حالیہ دنوں میں اپنا موقف کافی سخت کردیا ہے حتی کہ ترکی کی جانب سے کابل ہوائی اڈے کا نظم و نسق سنبھالنے کی منصوبے کی سخت مخالفت کی ہے۔ طالبان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے افغانستان کے تقریباً پچاسی فیصد علاقے پر کنٹرول کرلیا ہے۔ عام معافی دی جائے گی طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں میں کسی قسم کی جنگ نہیں کریں گے بلکہ حکومتی ذمہ داران سے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ طالبان کے ‘دعوت اور رہنمائی کمیشن‘ کے سربراہ امیر خان متقی کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام میں افغانستان کے علما، با اثر شخصیات، حکومتی ذمہ داران اور سرکاری ملازمین پر واضح کیا گیا ہے کہ اطراف میں جنگ مکمل ہو جائے تو مرکزی شہروں میں افغان طالبان کی جنگ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ امیر خان متقی نے کہا،”ہم نہیں چاہتے کہ مرکزی شہروں میں کاروبارِ زندگی اور تجارت متاثر ہو، صحت کے مراکز بند ہو جائیں اور عام لوگ متاثر ہوں۔” انہوں نے مزید کہا،”ہم با اثر شخصیات کو باور کرانا چاہتے کہ وہ سامنے آئیں اور حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بات کر کے اپنی مرضی سے حکومتی ذمہ داریوں سے دست بردار ہو جائیں تاکہ حکومتی مشینری اسی طرح چلتی رہے اور کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔“ امیر خان متقی نے اپنے پیغام میں مزید کہا”طالبان نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ وہ لوگ جو پارلیمان کے ممبران ہیں یا سینیٹرز ہیں ان کو کچھ نہ کہا جائے اور ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اداروں کے کام میں کوئی دخل ہو اور سب کچھ ٹھیک طریقے سے چلتا ر ہے۔”