پاکستان نے 17 سے 19جولائی تک تین روزہ افغان امن کانفرنس کی میزبانی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں مجوزہ امن کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کے روز معمول کی پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ پاکستان17 سے 19جولائی تک افغان امن نفرنس کی میزبانی کررہا ہے، جس میں افغان قیادت اور دیگر رہنماوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے مجوزہ افغان امن کانفرنس کے ملتوی ہونے کی خبروں کو بے بنیاد بتایا اور کہا کہ متعدد افغان رہنماوں نے کانفرنس میں اپنی شرکت کی تصدیق بھی کردی ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی اپنی ایک ٹوئٹ میں بتایا ہے کہ افغانستان میں استحکام کے لیے ہونے والی مجوزہ کانفرنس میں حامد کرزئی سمیت اعلیٰ افغان قیادت کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس کانفرنس کے نتیجے میں افغانستان کے مسائل کے حل کی نئی امید پیدا ہوگی۔ اس دوران پاکستانی میڈیا کی رپورٹو ں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان تاشقند میں، جہاں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں، آج افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں مجوزہ تین روزہ افغان امن کانفرنس کا باضابطہ اعلان کریں گے۔ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن کا خواہاں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں دیرپا قیام امن و استحکام کا خواہاں رہا ہے، افغانستان میں سکیورٹی کے معمولی خلاء کو دہشت گرد عناصر اور دیگر قوتیں پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔ ترجمان دفترخارجہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کی میزبانی کا متحمل نہیں ہو سکتا، خطے کے ربط، ترقی اور خوش حالی کے لیے پرامن افغانستان کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ امن کانفرنس کا مقصد افغان امن مساعی کے حوالے سے تمام فریقین کو جوڑنا اور صلاح و مشورہ کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو امید ہے کہ اس کانفرنس سے افغانستان میں امن کے لیے جاری کوششوں کو تقویت ملے گی۔ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر کتنا ہے؟ ایک سوال کے جواب میں زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سکیورٹی امور کا حتمی فیصلہ صرف افغان کریں گے، افغانستان کے مسئلے کا حل افغانوں کو از خود تلاش کرنا ہے۔ پاکستان محض معاونت کار کا رول ادا کرے گا۔ طالبان کو مدعوکیوں نہیں کیا گیا؟ پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ اس کانفرنس میں طالبان کو دعوت نہیں دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا،”جہاں تک کانفرنس کے شرکاء کی بات ہے تو طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ وہ متعدد بار پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور ہم نے افغان امن مساعی کے حوالے سے ان کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی ہے۔” دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اسلام آباد میں مجوزہ ‘افغان امن کانفرنس‘ کے بارے میں سنا ہے لیکن انہیں (طالبان کو) مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان نے اس امن کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں عروج پر ہیں اور طالبان نے افغانستان کے 85 فیصد علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے۔ گزشتہ روز طالبان نے پاکستان کی سرحد کے قریب اسپین بولدک کے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان عوام کو مزید خونریزی سے بچانے کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان تصفیے کے لیے کوشاں ہے۔ جنرل باجوہ کا افغانستان کا اچانک دورہ بھارتی قومی سلامتی مشیر کا ’اچانک‘ دورہ افغانستان مجوزہ افغان امن کانفرنس میں جن رہنماوں کو مدعو کیا گیا ہے ان میں اعلی کونسل برائے قومی مفاہمت کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، قومی اسمبلی کے اسپیکر میر رحمان رحمانی، افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر، سابق صدر حامد کرزئی، حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار، جماعت اسلامی کے سربراہ صلاح الدین ربانی، مارشل رشید دوستم کے فرزند بطور دوستم، مجاہدین کے سابق رہنما عبدالرب رسول سیاف، حزب وحدت کے رہنما کریم خلیلی اور محمد محقق، پاکستان کے لیے افغان صدر کے خصوصی نمائندے عمر داود زئی وغیرہ شامل ہیں۔