امریکا نے چین پر اپنا دباؤ بڑھانے کے اقدام کے تحت ہانگ کانگ میں چین کے ‘لائزن آفس’ کے اُن سات عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جو اس جزوی خود مختار شہر میں مبینہ طور پر چینی حکومت کے مقاصد کو فرو غ دے رہے تھے۔جو بائیڈن انتظامیہ نے چینی افسران پر پابندی عائد کرنے کا یہ قدم ہانگ کانگ میں جمہوریت کے تئیں بیجنگ کے سخت موقف کے جواب میں اٹھایا ہے۔ جن سات افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ ہانگ کانگ میں چین کے لائزن آفس میں کام کرتے ہیں اور وہاں بیجنگ کے مفادات کو فرو غ دے رہے تھے۔ یہ پابندیاں ایسے وقت عائد کی گئی ہیں جب امریکی حکومت نے ایک علیحدہ بزنس ایڈوائزری جاری کرکے ہانگ کانگ کے قومی سلامتی قانون اور اس قانون کی بین الاقوامی کمپنیوں پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے اس مشترکہ بیان میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ،” یہ نیا قانون…ہانگ کانگ میں کام کرنے والے تجارتی اداروں اور افراد کو بری طرح متاثر کرے گا۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں ہانگ کانگ سے کام کرنے والوں کو ممکنہ تادیبی، ریگولیٹری اور مالیاتی نیز بعض حالات میں قانونی خطرات سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔” اس بیان پر امریکا کی چار وزارتوں، محکمہ خارجہ، خزانہ، کامرس اور داخلی سلامتی نے دستخط کیے ہیں۔ امریکا کا چین پر وعدہ شکنی کا الزام جمعے کے روز چین کے عہدیداروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے اعلان سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے ہانگ کانگ میں ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کا ذکر کیا اور کہا کہ چین نے 1997ء میں علاقے پر اپنا قبضہ واپس لینے سے قبل جو وعدے کیے تھے ان وعدوں کو توڑ دیا ہے۔ ‘آگ سے نہ کھیلیں ‘، چین کی امریکا کو تنبیہ چین کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر امریکی تشویش امریکا: چین سے اقتصادی محاذ پر مقابلے کا بل منظور پاک امریکا تعلقات اور چین بائیڈن انتظامیہ کو سب سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق ہے کہ بیجنگ نے جو نیا قومی سکیورٹی قانون تیار کیا اسے ہانگ کانگ پر کس انداز میں نافذ کرے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے نتیجے میں اب چین کی حکومت سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف بڑی آسانی سے قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے اور یہ قانون اس علاقے کی خودمختاری کوختم کردے گا۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکا کے تازہ ترین فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو ہانگ کانگ کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے اور اگر اس نے مزید پابندیاں عائد کیں تو اسے”سخت جواب” کی توقع رکھنی چاہیے۔