اسلام آباد:وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں صورتحال بہت خراب کردی ہے مجھ جیسے لوگ کہتے رہے کہ فوجی حل ممکن نہیں جو افغانستان کی تاریخ جانتے ہیںوہ ہمیں امریکا مخالف اور طالبان خان کہتے تھے . امریکی نشریاتی ادارے پبلک براڈکاسٹنگ سروس(پی بی ایس)سے ویڈیولنک کے ذریعے کیئے گئے انٹرویو میں عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب امریکا کو یہ احساس ہوا کہ افغانستان میں کوئی فوجی حل نہیں ہے اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی سودے بازی کی پوزیشن کھو چکے تھے .وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کا ذمہ دار امریکا ہے اور اسے اپنی ناکامیوں اور ذمہ داریوں کو قبول کرنا چاہیے وزیر اعظم نے امریکا کو افغانستان میں فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ ایسا کبھی تھا ہی نہیں. انہوں نے کہاکہ امریکا کو بہت پہلے سیاسی تصفیے کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب نیٹو فوجی موجود تھے انہوں نے کہا پروگرام کی میزبان کو بتایا کہ ایک بار جب انہوں نے فوج کو بمشکل 10 ہزار کر دیا تھا اور پھر جب انہوں نے انخلا کی تاریخ بتادی تھی تو طالبان نے سوچا کہ وہ جیت گئے ہیں اور اس وجہ سے اب انہیں سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہوگیا ہے طالبان کی بحالی افغانستان کے لیے ایک مثبت پیشرفت ہے؟کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس کا واحد بہت نتیجہ ایک سیاسی تصفیہ ہوگا جو جامع ہوانہوں نے کہا ظاہر ہے کہ طالبان اس حکومت کا حصہ ہوں گے.وزیر اعظم نے بدترین صورتحال بیان کی جہاں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے اور کہا کہ پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ بدترین صورت حال ہے کیونکہ تب ہمیں دو مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں سے ایک مہاجرین کا مسئلہ ہے انہوں نے کہاکہ پہلے ہی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اور ہمیں جو خدشہ لاحق ہے وہ یہ ہے کہ ایک طویل خانہ جنگی مزید مہاجرین کو لائے گی اور ہماری معاشی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ ہم مزید آمد برداشت کرسکیں.دوسرے مسئلے کے حوالے سے انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سرحد پار سے ہونے والی ایک ممکنہ خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ طالبان پشتون ہیں اور اگر یہ افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو ہماری طرف کے پشتون بھی اس کی طرف راغب ہوجائیں گے‘ہم ایسا نہیں چاہتے . پاکستان کی افغانستان کو مبینہ فوجی، انٹیلیجنس اور مالی مدد کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے دوٹوک جواب دیا کہ مجھے یہ انتہائی غیر منصفانہ لگتا ہے وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ افغانستان میں امریکی جنگ کے نتیجے میں 70 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانیں دی ہیں جب کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ہونے والے واقعے کا پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تھااس وقت القاعدہ افغانستان میں مقیم تھی اور پاکستان میں کوئی عسکریت پسند طالبان موجود نہیں تھے.انہوں نے دوہرایا کہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، افغانستان کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے انہوں نے کہاکہ افغانستان میں سول وار ہوئی تو یہ بہت بھیانک ہو گی. ایک اور سوال پر وزیر اعظم نے دہرایا کہ امریکہ اور نیٹو مذاکرات کی صلاحیت کھو چکے ہیں جبکہ طالبان افغانستان میں پیش قدمی کر رہے ہیں پاکستان کسی بھی فریق کے لیے نہیں بلکہ قیام امن کے لیے افغانستان میں سہولت کاری کر رہا ہے.انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہیے جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو اور اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی تو طالبان بھی اس کا حصہ بن سکتے تھے اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد طالبان سے مذاکرات نہیں کیے عمران خان نے کہا کہ امریکہ کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا جبکہ طالبان خود کو افغانستان میں فاتح سمجھ رہے ہیں.دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی امداد ہمارے نقصان سے بہت کم ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے سے ہمارا 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار جانیں دیں وزیر اعظم نے کہا کہ جہادی بھیجنے سے متعلق افغانستان ثبوت پیش نہیں کرتا طالبان کو محفوظ ٹھکانے دینے کے ثبوت کہاں ہیں؟ اور افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا جاتا رہا لیکن ہم امن کے شراکت دار ہیں کسی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے.