کابل : امریکی ماہرین افغانستان کی جنگ میں ناکامی کی وجوہات جمع کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق گھمنڈ، غرور، جھوٹ اور خود فریبی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔بین الاقوامی امور کے امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ ویتنام کی جنگ کے تجربے کے تناظر میں امریکہ پر قسمت افغانستان میں بھی مہربان دکھائی نہیں دی۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کی دو دہائیوں پر پھیلی جنگ میں کئی داخلی اور خارجی امور نے ناکامی کی راہ کو ہموار کیا۔افغانستان کی تعمیر نو کے امریکی دفتر کے انسپکٹر جنرل جان سوپکو کا کہنا ہے کہ جب اگست کی 31 تاریخ کو امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو گا تو پیچھے بدعنوان اور کم ہمت فوج رہ جائے گی، جسے طالبان کی چڑھائی کا سامنا ہے۔جان سوپکو کا خیال ہے کہ افغانستان کی قومی فوج بڑی آسانی سے عسکریت پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی کیونکہ ان کے اندر حوصلے کی شدید کمی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں قیام کے دوران چھیاسی بلین ڈالر جھونک دیے اور بیس برس بھی صرف کیے مگر حاصل کچھ بھی نہیں ہوا۔سوپکو کو امریکی کانگریس کی جانب سے یہ مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ فوج اور ترقیاتی امور کی نگرانی کریں۔ انہوں نے 29 جولائی کو صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو لفظوں میں افغانستان کی جنگ میں امریکی ناکامی کو بیان کیا جا سکتا ہے اور اس میں ایک گھمنڈ جبکہ دوسرا جھوٹ ہے۔جان سوپکو کا کہنا ہے کہ امریکہ 2001 میں ایک ایسے ملک میں داخل ہوا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور پھر داخل ہونے کے بعد معاملات کے حوالے سے بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔ سوپکو کے مطابق کانگریس اور امریکی عوام کے سامنے صورت حال کو بیان کرتے ہوئے انتہائی مبالغے سے کام لیا گیا۔انہوں نے مبالغہ کرنے میں تمام جرنیلوں، سفیروں اور اہلکاروں کو شامل کیا ہے۔ سوپکو کے مطابق وقفے وقفے سے کم مدتی مقاصد کے حصول کے لیے امریکی فوج کو مضبوط کرنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں اور بار بار منزل کا تعین کیا جاتا رہا۔ سوپکو نے کہا کہ افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کرنے کی کوشش کا سلسلہ رکھا گیا اور یہ ایک غلطی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان امور کے ماہرین سے پوچھا جاتا تو وہ بھی اس کوشش کو غلطی قرار دیتے لیکن ان سے مشورہ ہی نہیں کیا گیا۔