اقوام متحدہ: بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے کے دو روز بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے تنازع پر اقوام متحدہ کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ وضاحت بھارت کے اقوام متحدہ کے سفیر ٹی ایس تیرومورتی کے اس بیان کے بعد سامنے آئی کہ متنازع ریاست اب بھارت کا ایک اٹوٹ انگ ہے۔نیو یارک میں بدھ کی سہ پہر نیوز بریفنگ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفنے ڈوجررک سے سوال کیا گیا کہ 70 سال سے زیادہ پرانے اس تنازع پر اقوام متحدہ کا موقف کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ‘کشمیر پر ہماری پوزیشن قائم ہے اور تبدیل نہیں ہوئی ہے، میں یہ بات اسی پت ختم کروں گا۔جب صحافی نے ان سے اس مسئلے پر اقوام متحدہ کے سرکاری موقف کو دوہرانے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ ‘آپ اسے متعلقہ قراردادوں میں پائیں گے، میں اسے دہرانے والا نہیں ہوں، لیکن ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔واضح رہے کہ پیر کی سہ پہر بھارت کے اقوام متحدہ کے سفیر ٹی ایس تیرومورتی نے اگست کے مہینے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے کے حوالے سے ایک نیوز کانفرنس کیا تھا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے بارے میں بھارت کے وعدوں کی وضاحت کرنے کے لیے ان سے سوال کیا گیا جو متنازع علاقے میں رائے شماری کا کہنا ہے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر ‘بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔نئی دہلی کے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کے علاقے کو غیر قانونی طور پر ضم کرنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آئین کی دیگر شقوں کی طرح آرٹیکل 370 میں کوئی تبدیلی یا ترمیم، بھارتی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔یہ بیان دیتے ہوئے بھارتی سفیر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پس پشت رکھا جو جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقہ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کی ضمانت دیتے ہیں۔اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سفیر منیر اکرم جنہوں نے اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کے دوران ہندوستان کے طرز عمل کو ‘محتاط انداز میں دیکھنے کا عزم کیا تھا، نے بھارتی سفیر کے دعوے کو غلط قرار دیا۔جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے اور ‘بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔سلامتی کونسل کی قراردادیں جن میں رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا ہے نافذ العمل ہیں اور اسے صرف سلامتی کونسل ہی منسوخ کر سکتی ہے۔5 اگست 2019 کے بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 91 اور 122 کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت نتیجہ خیز اس وقت ہوگی جب بھارت 5 اگست 2019 کو اور اس کے بعد اٹھائے گئے تمام یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو تبدیل کرے، بھارتی قابض جموں و کشمیر میں شروع ہونے والی آبادیاتی تبدیلیوں کو ختم کرے وہاں اپنے ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرے۔اقوام متحدہ نے بھی بھارت کے غیر قانونی الحاق کو مسترد کر دیا تھا اور نئی دہلی کو یاد دلایا کہ اس خطے پر اقوام متحدہ کا موقف اقوام متحدہ کے چارٹر اور قابل اطلاق سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ہے۔اقوام متحدہ نے وضاحت دی کہ ‘سیکریٹری جنرل نے 1972 کے بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے معاہدے کو بھی یاد کیا جسے شملہ معاہدہ بھی کہا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی حتمی حیثیت کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق پرامن طریقوں سے حل کیا جانا چاہیے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکریٹری جنرل کشمیر پر بھارت کی جانب سے پابندیوں کی خبروں پر بھی تشویش میں ہیں جو خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے۔سیکریٹری جنرل نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات کرنے سے گریز کریں جو جموں و کشمیر کی حیثیت کو متاثر کرسکیں۔جہاں بھارتی سفیر نے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر بھارت کا ‘اٹوٹ انگ’ ہے وہیں انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت پاکستان کے ساتھ کسی بھی مسئلے پر بات چیت اور 1972 شملہ معاہدے کے تحت دو طرفہ اور پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے تیار ہے۔