ایک وقت تھا جب وہ 3-1 سے ہار رہے تھے۔ پھر سکور لائن بدلی اور انڈیا کو 5-3 سے برتری حاصل ہو گئی۔جب آخری چار منٹ کا کھیل باقی رہ گیا تو گول کیپر سمیت جرمنی کے تمام کھلاڑی میدان میں آ گئے اور انڈیا کے گول کی طرف لپکے۔پھر میچ ختم ہونے سے محض چھ سیکنڈ قبل جرمنی کو پینلٹی کارنر ملا۔ اگرچہ لوکس وائنڈفیڈر نے اسے بھی نیٹ کے پیچھے پہنچا دیا لیکن وہ انڈیا کی برتری پر اثر انداز نہ ہو سکے اور اس طرح نیلی وردی میں ملبوس انڈیا کے کھلاڑیوں نے 41 برس بعد ہاکی میں اولمپک میڈل جیتنے کا جشن منایا۔دوسری جانب انڈیا کی خواتین کی ٹیم بھی اس وقت تیسری پوزیشن کے تعاقب میں ہے اور جمعے کو کانسی کے تمغے کے لیے برطانیہ کا مقابلہ کرے گی۔لیکن ٹوکیو اولمپکس میں انڈیا کی مردوں اور خواتین کی ہاکی ٹیموں کی شاندار کارکردگی نے جہاں انڈیا میں جوش اور خوشی کا ماحول پیدا کردیا ہے وہیں اس سوال نے بھی جنم لیا ہے کہ آخر انڈیا نے ایسا کون سا جادو کیا کہ اس کی ہاکی ایک بار پھر بلندیوں کو چھونے لگی ہے۔اور اگر انڈیا ایسا کر رہا ہے تو پھر اس کا پڑوسی ملک پاکستان ابھی تک ہاکی کے زوال سے کیوں نکل نہیں پا رہا اور وہ بین الاقوامی دھارے سے باہر ہو چکا ہے۔پاکستان اور انڈیا کی ہاکی کے تقابلی جائزے سے قبل اولمپکس مقابلوں میں انڈین ٹیم کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔اگرچہ منگل کو ٹوکیو اولمپکس کے سیمی فائنل میں انڈیا کی مردوں کی ہاکی ٹیم کو عالمی چیمپیئن بیلجیئم کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تاہم انڈین ٹیم کا اولمپکس کے سیمی فائنل تک پہنچنا ہی ایک بڑا کارنامہ سمجھا جا رہا تھا۔ٹوکیو اولمپکس میں انڈین ٹیم نے کوارٹر فائنل میں برطانیہ کو شکست دی تھی۔ گروپ مقابلوں میں اس نے نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی کے بعد آسٹریلیا سے سات ایک کی بھاری شکست کھائی تھی لیکن اس شکست کے بعد اس نے جاپان، ارجنٹائن اور سپین کو ہرایا تھا۔دوسری جانب انڈیا کی خواتین کی ہاکی ٹیم نے فیورٹ آسٹریلیا کو ہرا کر پہلی مرتبہ اولمپکس کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی ہے۔انڈیا کی مردوں کی ہاکی ٹیم کے لیے سیمی فائنل تک رسائی اس اعتبار سے غیرمعمولی بات تھی کہ وہ آخری بار 1972 کے میونخ اولمپکس کے سیمی فائنل میں پہنچی تھی اور وہاں شکست کے بعد تیسری پوزیشن کے میچ میں اس نے ہالینڈ کو ہرا کر کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔انڈیا نے اگرچہ 1980 کے ماسکو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا لیکن ان مقابلوں میں پاکستان سمیت بین الاقوامی ہاکی کی نو بڑی ٹیمیں سوویت یونین کے خلاف ہونے والے بائیکاٹ کے سبب موجود نہیں تھیں اور صرف چھ ٹیموں کے ایونٹ میں انڈیا سپین کو ہرا کر گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔ماسکو اولمپکس کے بعد سے انڈین ہاکی ٹیم کی کارکردگی نیچے چلی گئی تھی اور ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں بھی وہ کوالیفائی نہ کر سکی۔ 2012 کے لندن اولمپکس میں اس کی پوزیشن سب سے آخری یعنی بارہویں رہی تھی جبکہ 2016 کے ریو اولمپکس میں اس کی پوزیشن آٹھویں تھی۔ہربیندر سنگھ 1964 میں ٹوکیو میں ہی میں منعقدہ اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والی انڈین ہاکی ٹیم کے کھلاڑی تھے اور اب جو ٹیم ٹوکیو گئی ہے اسے سلیکٹ کرنے والوں میں ہربیندر سنگھ بھی شامل ہیں۔ہربیندر سنگھ بی بی سی ہندی کےآدیش کمار گپتا سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ʹبھارتی ٹیم کو کووڈ کے سبب اس سال زیادہ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اس سے قبل اس نے پرو ہاکی لیگ میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی تھی اور بڑی ٹیموں کے خلاف میچز بھی جیتے تھے۔جب یہ ٹیمیں آپ کے سامنے دوبارہ آتی ہیں تو قدرتی طور پر آپ کا اعتماد بڑھا ہوا ہوتا ہے مورال بلند ہوتا ہے۔ ٹوکیو اولمپکس میں ٹیم کی اچھی کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ٹیم کا کامبینیشن اچھا بنا ہوا ہے اور اس کی فٹنس بھی بہت اچھی ہے اور کووڈ کی وجہ سے اس نے زیادہ تر وقت بنگلور کے ٹریننگ کیمپ میں گزارا ہے جس کا کھلاڑیوں کو کافی فائدہ ہوا ہے۔انڈیا کے سابق اولمپیئن اور 1975 کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان اجیت پال سنگھ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ʹجب انڈین ٹیم لندن اولمپکس میں آخری نمبر پر آئی تو میڈیا میں اسے انڈین ہاکی کی موت قرار دے کر تعزیت لکھی گئی لیکن اس کے بعد انڈیا نے کارکردگی کو اوپر لانے کے لیے بہت محنت کی۔