پاکستانی سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے سے پاکستان کی سلامتی کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں جبکہ حقوق نسواں کے کارکن طالبان کی فتح کو پاکستان اور افغانستان کی خواتین کے لیے تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ افغان طالبان نے صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے کے بعد صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے اور اب تقریباً پورا افغانستان عسکریت پسند گروہ طالبان یا ‘امارات اسلامیہ‘ کے قبضے میں ہے۔ کئی ناقدین کے مطابق افغان طالبان کا خواتین کے حقوق کے حوالے سے ماضی میں رویہ انتہائی نامناسب رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب افغان طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو خواتین پر بہت ساری پابندیاں لگائی گئیں۔ لڑکیوں کے اسکولوں کو بند کیا گیا۔ خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگائی گئی اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی قدغنیں لگائی گئیں۔ پاکستان کے لیے سکیورٹی کے مسائل افغان طالبان کے برسراقتدار آنے سے پاکستان میں سلامتی کے بھی کئی مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ تنظیمیں پاکستان میں دہشت گردی کر کے افغانستان میں پناہ لے لیتی تھیں۔ پاکستان اپنے تمام تر اثر و رسوخ کے باوجود اُن فرقہ وارانہ دہشت گردوں کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکا جنہوں نے افغانستان میں پناہ لی تھی اور جب کبھی بھی اسلام آباد نے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا، تو طالبان نے اس مطالبے سے صرف نظر کیا۔ سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے ایک بار پھر پاکستان کو سکیورٹی کے حوالے سے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو رہا کردیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’افغان حکام نے گزشتہ بارہ سالوں میں ٹی ٹی پی کے کئی دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہوا تھا جو ان کی جیلوں میں تھے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے جہاں دوسرے قیدی رہا ہوئے ہیں وہاں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ وہیں رہیں گے یا پاکستان میں آکر ہمارے لیے مسائل کھڑے کریں گے اورسکیورٹی فورسز پر حملے کریں گے۔‘‘پاکستانی طالبان کے حوصلے بڑھ گئے‘ امان میمن کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ پاکستانی قبائلی علاقوں کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول، ’’یہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان نظریاتی طور پر بھائی ہیں۔ اگر پاکستان نے افغان طالبان کے ذریعے ان کو گرفتار نہیں کیا تو پاکستان کے لیے بہت بڑا نیشنل سکیورٹی مسئلہ کھڑا ہو جائے گا، جس کو حل کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔‘‘ امان میمن کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ نے ماضی میں ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ ’’لیکن آزاد ریاست کی بات کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستانی طالبان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور افغان طالبان کی فتوحات دیکھ کر ان کے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ پاکستانی ریاست کو نہ صرف چیلنج کرسکتے ہیں بلکہ اس کو شکست دے کر ایک آزاد ریاست بھی قائم کر سکتے ہیں۔ اگر اس ریاست کے لیے مسلح جدوجہد کی گئی تو یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا درد سر بنے گی۔‘‘ ٹی ٹی پی کے لیے محفوظ پناہ گاہیں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہو جائیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کے لوگ حملہ کر کے افغانستان کے کچھ علاقوں میں چھپ جاتے تھے لیکن اُس وقت وہاں پر کیوں کہ افغان حکومت اور نیٹو کی فوجیں ہوا کرتی تھی، اس لیے بہت سارے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد گرفتار بھی ہوئے۔ لیکن اب ایسی پریشان کن خبریں آرہی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو، جس میں مولوی فقیر بھی شامل ہیں، افغان طالبان نے رہا کردیا ہے۔ یہ خبر پاکستان کی سلامتی کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔‘‘ ایوب ملک کے بقول ٹی ٹی پی اگر پاکستان میں اب کوئی عسکریت پسندی کی تحریک شروع کرتی ہے، تو ان کے لیے یہ بڑا آسان ہو گا کہ یہاں سے حملے کر کے وہ اپنے نظریاتی بھائیوں کے پاس افغانستان میں پناہ لے لیں اور پاکستان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ ایوب ملک کے خیال میں پاکستان کی سکیورٹی کا یہ تقاضا ہے کہ پاکستان فوری طور پر افغان طالبان سے مطالبہ کریں کہ ٹی ٹی پی کے جتنے بھی دہشت گردوں کو رہا کیا گیا ہے ان کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ ’’ان کو پاکستان لا کر ان پر مقدمات دائر کیے جائیں۔ اگر ان کو افغانستان میں ہی رہنے دیا گیا، تو یہ پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر ابھریں گے۔‘‘ حقوق نسواں کی کارکنان کو تشویش افغان طالبان کی فتح پر پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین بھی تشویش کا شکار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ طالبان کی فتح سے نہ صرف افغانستان میں خواتین کے لیے مشکلات بڑھیں گی بلکہ پاکستان میں بھی خواتین کے لیے اسپیس سکڑے گا۔ اردو اور سندھی ڈراموں کی معروف ڈرامہ نگار، مصنفہ اور خواتین کے حقوق کی علمبردار نورالہدیٰ شاہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان نے جس طرح خواتین کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھا، اس کی وجہ سے کوئی بھی اب ان کی یقین دہانیوں پر اعتبار نہیں کرے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’افغان طالبان کے آنے سے پاکستان میں بھی عورت دشمن سوچ کو فروغ ملے گا۔ طالبان صرف تحریک نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے اور افغان طالبان کی فتح سے اس مائنڈ سیٹ کے حوصلے بڑھیں گے، جس کی وجہ سے خواتین دشمن رویوں میں تیزی آئے گی۔‘‘ نورالہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگائی۔ ان کو کام کرنے سے روکا اور انہیں سنگسار بھی کیا۔ ان کے بقول، ’’یہ تمام مظالم کیسے بھلا دیے جائیں۔ اب طالبان یہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین کو تعلیم کی اجازت ہوگی لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت ہوگی لیکن ماضی کے ظلم و ستم کے پیش نظر کوئی ان کی باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے ایسی سوچ کو فروغ دیا جس کے مطابق عورت کم تر ہے۔ اس پر تشدد جائز ہے۔ اس پر ظلم کرنا مرد کا حق ہے۔ ایسی سوچ نہ صرف افغانستان کی خواتین کے لیے زہر قاتل ہے بلکہ پاکستانی خواتین کے لیے بھی خطرناک ہے۔‘‘ نورالہدیٰ شاہ نے کہا، ’’اب اس سوچ کا چرچا نہ صرف پاکستان کی ریاست کرے گی بلکہ پاکستانی طالبان بھی اب اس سوچ کو مذید پروان چڑھائیں گے۔‘‘