امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی فوجی کمانڈروں کو داعش خراسان کے اثاثوں، سہولتوں اور قیادت پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔خیال رہے کہ کابل ایئرپورٹ کے باہر ہوئے 2 بم دھماکوں اور فائرنگ کے بعد 28 طالبان سمیت 72 افغان شہری جاں بحق ہوئے جبکہ حملے میں 13 امریکی فوجی بھی مارے گئے تھے۔دولت اسلامیہ سے منسلک داعش خراسان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جو مغرب کے ساتھ ساتھ طالبان کی بھی دشمن ہے، جس کا کہنا تھا کہ اس کے ایک خودکش حملہ آور نے امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والوں اور مترجموں کو نشانہ بنایا۔حملے کے بعد وائٹ ہاؤس میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’وہ لوگ جنہوں نے یہ حملہ کیا، ساتھ ہی جو امریکا کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں وہ جان لیں کہ ہم معاف نہیں کریں گے، نہ ہم بھولیں گے، ہم تمہیں شکار کریں گے اور وصولی کریں گے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے وقت پر، اپنی منتخب کردہ جگہ اور اپنے منتخب کردہ لمحے میں طاقت سے جواب دیں گے۔جو بائیڈن نے کہا کہ میں اپنے ہر اقدام کے ساتھ اپنے مفادات اور اپنے لوگوں کا دفاع کروں گا۔جو بائیڈن نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اگر انہیں ضرورت محسوس ہوئی تو وہ افغانستان کو مزید فوجی امداد بھیج سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’میں نے فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ جو چاہے کرے، اگر انہیں اضافی فورس کی ضرورت ہوئی تو میں انہیں دوں گا‘۔امریکی صدر کے بقول ان حملوں نے امریکی فوج کے اپنے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کو بڑھایا ہے، آج کابل میں جن فوجیوں کی جانیں گئیں وہ ہیروز اور ملک کی بہترین پیشکش تھے۔انہوں نے کہا کہ آج جو زندگیاں ہم نے کھو دی ہیں وہ آزادی، سلامتی، دوسروں اور امریکا کی خدمت کے لیے دی گئیں۔ساتھ ہی انہوں نے کابل ایئرپورٹ کے باہر سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے طالبان پر انحصار کرنے کا بھی دفاع کیا۔جو بائیڈن نے کہا کہ ‘ہم ان کے ذاتی مفاد میں کام کرنے کے لیے ان پر اعتماد کر رہے ہیں اور جب ہم نے کہا ہے کہ ہم چلے جائیں گے تو یہ بھی ان کے مفاد میں ہے‘۔ان کا کہنا تھا ہمارے کمانڈروں کے پاس ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ داعش اور طالبان کے درمیان ملی بھگت ہے۔دوسری جانب امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے کہا ہے کہ داعش کی جانب سے مزید حملوں کے خطرے کے پیشِ نظر امریکی کمانڈرز کو الرٹ کردیا گیا ہے، انہوں نے بتایا کہ ایئرپورٹ کو نشانہ بنانے کے لیے راکٹ یا بارود بھری گاڑی سے حملے کا خدشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم تیار رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، کچھ خفیہ اطلاعات طالبان کے ساتھ شیئر کی جارہی ہیں اور ان کے خیال میں کچھ حملوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔فرینک میکنزی کا مزید کہنا تھا کہ امریکا مزید حملوں کے خطرے کے باوجود انخلا جاری رکھے گا، واضح رہے کہ افغانستان میں اب بھی تقریباً ایک ہزار امریکی شہری موجود ہیں۔ایئرپورٹ کے اندر تعینات ایک مغربی سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ انخلا کی پروازوں کی رفتار جمعہ کے روز تیز ہوگئی ہے اور امریکی پاسپورٹ رکھنے والوں کو ایئرپورٹ کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے۔گزشتہ 12 روز کے دوران مغربی ممالک ایک لاکھ افراد کا انخلا کرچکے ہیں لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ رواں ماہ کے اختتام پر جب آخری امریکی فوجی بھی روانہ ہوجائے گا اس کے بعد بھی ہزاروں افراد رہ جائیں گے۔متعدد ممالک کا کہنا ہے کہ شہریوں کا انخلا اختتام پذیر ہوچکا ہے اور ان کا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا ہے۔