جہاں امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ کابل میں ایک جامع حکومت لانے میں اہم کردار ادا کرے، وہیں ایک قانون ساز نے خبردار کیا ہے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو امریکا، افغانستان میں دوبارہ داخل ہو سکتا ہے۔یہ بیان پاکستان کے امریکی اور اقوام متحدہ کے مندوبین کی اس یقین دہانی کے بعد سامنے آئے کہ اسلام آباد بھی کابل میں ایک جامع حکومت چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ’ہم پاکستانی قیادت کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں اور افغانستان کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی ہے’۔عہدیدار نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے افغانستان میں وسیع حمایت کے ساتھ ایک جامع حکومت کی مستقل اور عوامی طور پر وکالت کی ہے اور ہم اس نتیجے کو فعال کرنے میں پاکستان کو اہم کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں’۔گزشتہ روز طالبان نے افغانستان میں ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا جس میں گروپ کے پرانے رہنماؤں کا غلبہ تھا جس میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔گروپ کے مرحوم بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی محمد حسن اخوند نئی حکومت کے سربراہ ہیں جو واشنگٹن کی خواہش کی عکاسی نہیں کرتی۔اس اعلان سے چند گھنٹے قبل ریپبلکن سینیٹر لنزے گراہم نے تجویز دی کہ اگر امریکا ستمبر 2001 میں امریکی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے عسکریت پسندوں کو اس ملک میں اپنی جڑیں دوبارہ پھیلانے کی اجازت دیتا ہے تو امریکا دوبارہ مداخلت کرسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان بہتر نہیں ہوئے، وہ نئے نہیں ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ القاعدہ کو محفوظ پناہ دینے والے ہیں جن کے عزائم ہیں کہ وہ ہمیں مشرق وسطیٰ سے نکال دیں اور ہمارے طرز زندگی کی وجہ سے ہم پر حملہ کریں’۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عراق اور شام کی طرح افغانستان بھی واپس جاسکتے ہیں’۔انٹرویو لینے والے اسٹیفن شاکر نے ان کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا کہ ’آپ سنجیدگی سے یہ بات کر رہے ہیں کہ امریکا ایک مرتبہ پھر مستقبل قریب میں افغانستان میں فوجیں واپس بھیجے گا’۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’ہمیں کرنا پڑے گا’۔خیال رہے کہ امریکا نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا تھا، 2011 میں اپنی افواج کو واپس بلا لیا تھا تاہم 3 سال بعد انہیں واپس بھیج دیا تھا۔تقریبا 2 ہزار 500 امریکی فوجی اب بھی وہاں موجود ہیں تاہم اب تک کسی امریکی عہدیدار نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کو دوبارہ بھیجنے کی ضرورت کے بارے میں بات نہیں کی ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے معاون اکثر کابل میں ایک جامع حکومت لانے کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہیں جو افغانستان میں تمام مذہبی، نسلی اور سیاسی گروہوں کی نمائندگی کرتی ہو۔ڈان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے نشاندہی کی کہ پوری عالمی برادری اس بات کو یقینی بنانے میں حصہ دار ہے کہ طالبان اپنے عوامی وعدوں اور ذمہ داریوں پر پورا اتریں۔عہدیدار نے مزید کہا کہ ’یہ اہم ہے کہ افغانستان میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے بین الاقوامی برادری کے اراکین اپنے اختیار میں تمام تر ذرائع استعمال کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان، اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے’۔امریکی حکام نے اکثر کہا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں کافی فائدہ اٹھانا ہے تاکہ وہ اہم پیش رفت پر اثر انداز ہو سکے اور اسے ایسا کرنا چاہیے۔واشنگٹن ٹائمز اخبار میں ایک اداریے میں پاکستان میں امریکی سفیر اسد مجید خان نے کہا کہ ’پاکستان اور امریکا افغانستان میں یکساں مفادات رکھتے ہیں، ایک جامع حکومت کی تشکیل جو افغانستان کے نسلی اور فرقہ وارانہ تنوع کی عکاسی کرے’۔انہوں نے کہا کہ ایسی حکومت کو ’انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم تک رسائی کو بڑھانے میں ملک کے فوائد کو بھی محفوظ رکھنا چاہیے’۔ایک اور امریکی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے اقوام متحدہ کے سفیر منیر اکرم نے اشارہ کیا کہ اگرچہ اسلام آباد کا افغانستان میں کچھ اثر و رسوخ ہے مگر وہ طالبان کو وہ کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا جو وہ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ افغان رہنما ایک مخلص دوست کی بات کو ایک جامع حکومت بنانے کی کوشش میں سنیں گے جہاں تمام نسلی گروہوں اور اقلیتوں بشمول تاجک، ہزارہ اور اہل تشیع مسلک کی نمائندگی ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اگر وہ ذمہ دار ہیں تو وہ ایک جامع حکومت دیکھیں گے اور اُمید ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسی حکومت ہوگی جو ملک میں امن لائے گی’۔