11 ستمبر 2001 کے حملے کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور دیگر چار افراد کو 18 ماہ سے زائد عرصے کے بعد منگل کے روز پہلی مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق خالد شیخ محمد کو کیوبا میں گوانتاناموبے کی جیل سے امریکی نیول بیس میں قائم کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا جہاں 9 سال سے جاری یہ مقدمہ طویل تعطل کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ملٹری ٹریبونل کا کمرہ عدالت پراسیکیوٹر، ترجمان اور خالد شیخ محمد اور حملے میں شریک دیگر مبینہ ملزمان عمار البلوچی، ولید بن عطاش، رمزی بن الشیب اور مصطفیٰ الحوسوی کی پانچ دفاعی ٹیموں سے بھرا ہوا تھا۔سامعین میں موٹے شیشے کے پیچھے اس حملے میں مرنے والے 2 ہزار 976 افراد کے لواحقین بھی موجود تھے جہاں ملزمان پر 20 سال قبل ان تمام افراد کو حملے میں قتل کرنے کا الزام ہے۔جرم ثابت ہونے پر ملزمان کو پھانسی کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔لیکن ٹرائل سے قبل کا مرحلہ اب اپنے نویں سال میں ہے اور مرکزی مسئلہ پس پشت چلا گیا ہے کیونکہ ملزمان نے سی آئی اے پر گرفتاری کے بعد مستقل تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران گوانتاناموبے جیل کو سیاسی مداخلت کے بغیر بند کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس مقدمے کا مکمل ٹرائل شروع ہونے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔منگل کو گوانتانامو بے میں امریکی بحری اڈے کی پہاڑی چوٹی پر انتہائی محفوظ کیمپ جسٹس کے کمرہ عدالت میں مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔آخری مرتبہ مقدمے کی سماعت فروری 2019 میں ہوئی تھی جس کے بعد اگلی سماعت سے قبل امریکا میں کورونا پھیل گیا تھا۔مقدمے کی سماعت کا یہ مقام جیل کے کیمپوں سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں پانچ ملزمان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کے الزام میں گرفتار کیے گئے 34 دیگر قیدیوں کو 15 سال یا اس سے زیادہ عرصے سے رکھا ہوا ہے۔سماعت بالکل نئے جج اور ایئر فورس کے کرنل میتھیو میک کال کی زیر نگرانی شروع ہوئی جو اس مقدمے کی صدارت کرنے والے آٹھویں جج ہیں۔میتھیو میک کال نے تمام مدعا علیہ سے یہ پوچھا کہ کیا وہ سماعت کے رہنما اصول سمجھتے ہیں جن میں سے ہر فرد نے انگریزی یا اپنی مادری زبان میں اثبات میں جواب دیا۔دوران سماعت بتایا گیا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خالد شیخ محمد نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی تیاریوں میں ملوث تھے۔انہوں نے پوچھ گچھ کرنے والوں کو بتایا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو 1996 میں یہ منصوبہ تجویز کیا تھا اور اس حملے پر عملدرآمد کی نگرانی کی تھی جس میں القاعدہ کے 19 ارکان نے چار امریکی مسافر طیارے ہائی جیک کیے تھے اور دو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور ایک پینٹاگون میں گر کر تباہ ہوئے تھے، چوتھا طیارہ مسافروں کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں پنسلوینیا کے ایک میدان میں گر گیا تھا۔دیگر چار ملزمان نے مبینہ طور پر حملے کی تیاری، ہائی جیکرز کو تربیت دینے، پیسے کی منتقلی اور نقل و حرکت کو مربوط کرنے میں مدد کی۔پانچوں کو 2002 سے 2003 کے درمیان پکڑا گیا اور دنیا بھر میں سی آئی اے کی تاریک جیلوں میں رکھ کر تشدد کے مختلف بدترین ہتھکنڈے آزمائے گئے جن پر اب مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ان سب کو تقریباً 15 سال پہلے گوانتانامو لایا گیا تھا۔وکیل دفاع کا مؤقف ہے کہ تشدد نے پورے مقدمے کو داغدار کر دیا اور اگر یہ کارروائی امریکا کے اندر وفاقی عدالت میں ہوتی تو پورے مقدمے کو خارج کردیا جائے گا۔وکلائے دفاع نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ناصرف سی آئی اے کی تفتیش کے شواہد ناقابل قبول ہیں بلکہ ایف بی آئی کی 2007 میں نام نہاد کلین ٹیم کی تفتیش کے شواہد بھی موجود ہیں کیونکہ ایف بی آئی نے بھی سی آئی اے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔