لبنان کی پارلیمان نے نئی حکومت کے پیش کردہ ملک کی معیشت کی بحالی کے نئے پروگرام کو منظور کر لیا ہے۔ نئے وزیر اعظم نجیب میقاتی کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے بات چیت کے سوا اب کوئی چارہ نہیں ہے۔لبنان کی پارلیمان نے 20 ستمبر پیر کے روز نو منتخب وزیر اعظم نجیب میقاتی کی اس کابینہ کی توثیق کردی جس نے ملک کے تباہ کن معاشی بحران کو دور کرنے کا عہد کیا ہے۔ تقریباً تیرہ ماہ کے سیاسی تعطل کے بعد لبنان میں نجیب میقاتی کی حکومت تشکیل ہو پائی ہے، جس نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت کو بحال کرنے اور اصلاحات شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ لبنان کو اپنی معیشت مستحکم کرنے کے لیے اس وقت بیرونی قرضوں کی سخت ضرورت ہے اور ممکنہ عطیہ دہندگان مدد کرنے سے پہلے یہ دیکھنے کے متمنی ہیں کہ آیا حکومت ضروری اصلاحات کرتی ہے یا نہیں۔ پارلیمان میں ووٹنگ سے قبل بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر اعظم میقاتی نے کہا،’’ہم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت شروع کریں گے۔ یہ کوئی پسند یا نا پسند کرنے کی بات نہیں ہے، بلکہ ایسی چیز ہے جس سے ہمیں گزرنا ہی ہو گا۔‘‘ 100 رکنی پارلیمان میں 85 اراکین نے ان کی حمایت کی جبکہ 15 نے ان کی مخالفت کی۔ ووٹنگ کے دوران ہی بجلی چلی گئی اعتماد کے ووٹ کے لیے جب پارلیمان میں بحث جاری تھی اس وقت بجلی کی قلت کے سبب لائٹ گل ہو گئی جس کی وجہ سے پارلیمان کے اجلاس کو تقریباً ایک گھنٹے کے لیے روکنا پڑا۔ تاہم بعد میں جب بجلی دوبارہ آئی تو ووٹنگ کا عمل مکمل کر لیا گیا۔ پارلیمان کے اسپیکر نبیح بیری نے بجلی کی کمی کے سبب وزیر اعظم نجیب میقاتی پر زور دیا کہ وہ اپنی تقریر مختصر کریں تاکہ اجلاس کو مکمل کیا جا سکے۔ لبنان اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے تاہم سب سے برا حال معیشت کا ہے اور اس کے تمام خزانے ختم ہو چکے ہیں۔ خطاب کے دوران میقاتی نے اپنی حکومت کے عزائم، پالیسی اور پروگرام کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا،’’بیروت کے مصائب کے دل سے… ہماری کابینہ اس نا امید اندھیرے میں شمع جلانے کے لیے پیدا ہوئی تھی۔‘‘ پارلیمان کے اسپیکر نبیح بیری کا تعلق شیعہ جماعت عمل سے ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے کہا،’’ہم اسے مکمل طور پر پڑھنے کے لیے آپ پر زور نہیں ڈالنا چاہتے، بجلی کے مسائل کے وجہ سے ہمیں وقت بچانے کی ضرورت ہے۔‘‘ تاہم اس کے باوجود پارلیمانی اجلاس تقریبا ًسات گھنٹوں تک جاری رہا۔ بیروت دھماکے کے اثرات اب بھی نمایاں ہیں لبنان اس وقت ایک شدید معاشی بدحالی کا شکار ہے، جہاں ایندھن کی بھی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی ریاستی کمپنیاں جس مقدار میں ضرورت ہے بجلی پیدا نہیں کر رپا رہی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو سپلائی کی شدید کمی رہتی ہے اور لوگ زیادہ تر نجی طور پر چلنے والے جنریٹرز پر انحصار کرتے ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں بیروت کی ایک بندر گاہ پر زبردست دھماکہ ہوا تھا جس میں 200سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ہی حکومت نے استعفی دے دیا تھا اور تب سے ملک میں ایک عارضی حکومت کام کر رہی تھی۔