فرانس کے ساتھ آبدوز معاہدہ منسوخ ہونے کی وجہ سے پیدا شدہ تنازعے اور سفارتی کشیدگی کے باوجود یورپی یونین اور امریکا کے چوٹی کے تجارتی عہدیداروں کے مابین پٹس برگ میں یو ایس۔ای یو تجارت و ٹیکنالوجی کونسل کی پہلی میٹنگ ہوئی۔یورپ اور امریکا کے اعلی عہدیداروں کے مابین یہ بات چیت امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کی مشترکہ صدارت میں ہوئی۔ انہوں نے ٹوئٹ کرکے اس کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ بات چیت ”کافی حوصلہ افزا‘‘ رہی۔ بلینکن نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا،”یہ تعاون اور اشتراک کے شاندار جذبے اور امریکا اور یورپی یونین کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حوالے سے خواہش کا مظہر ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عہدیداروں کے مابین اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ تجارتی امور کے حوالے سے مسائل کو حل کرنے کے لیے ماہرین کی جو دس کمیٹیاں کام کررہی ہیں، انہیں اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ تاہم فرانس کے آسٹریلیا کے ساتھ اربو ں ڈالر کے آبدوز معاہدے کے منسوخ ہوجانے کی وجہ سے پیرس کی ناراضگی یورپی یونین اور امریکا کے درمیان مذکورہ تجارتی مذاکرات کی کامیابی کی راہ میں اڑچن پیدا کرسکتی ہے۔ کن امور پر اتفاق ہوا؟ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ماحولیات اور صاف ستھری ٹیکنالوجی کے علاوہ عالمی تجارتی امور کے حوالے سے جو ورکنگ گروپ قائم کیے گئے ہیں وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ سیمی کنڈکٹروں کے سپلائی چین کو مستحکم اور محفوظ کرنے کے کام کو ورکنگ گروپ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے تاکہ بالخصوص مختصر مدتی سپلائی چین کے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ دیگر امور میں یورپی یونین اور امریکا دونوں ہی کا سرمایہ کاری کا جائزہ لینے اور یقینی بنانے کی اہمیت پر اتفاق رائے شامل ہے۔ اس کا مقصد بعض غیر ملکی سرمایہ کاریوں سے پیدا ہونے والے خطرات سے خود کو محفوظ کرنا ہے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے ”بھروسے مند” آرٹیفیشئل انٹلیجنس کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی جو سماج اور معیشتوں کے کام آسکیں۔ خیال رہے کہ ٹریڈ ٹیکنالوجی کونسل (ٹی ٹی سی) کا قیام جون میں امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کیا تھا۔ اس کا مقصد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دوران تجارتی محصولات کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعات کو دور کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔ اس کونسل کا ایک مقصد سپلائی چین کو یقینی بنانے اور چین جیسے ممالک کی طرف سے اپنائے جانے والے غیر منصفانہ تجارتی طریقہ کار کا مقابلہ کرنا بھی ہے۔