پاکستان کوایغور مسلمانوں پر چینی مؤقف تسلیم۔ عمران خاں
اسلام آباد، یکم جولائی (یو این آئی) //چین کے ساتھ اپنی گہری دوستی کااعادہ کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خاں نے کہا ہے کہ ایغور مسلمانوں پر عالمی برادری اور چین کا مؤقف بہت الگ ہے اور ہم اس معاملے پر چین کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہیں۔یہ بات انہوں نے چینی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہاکہ ’پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کبھی کم نہیں کرے گا، یہ کبھی نہیں ہوگا، پاکستان اور چین کے تعلقات بہت گہرے ہیں جتنا بھی دباؤ ہو ہمارے تعلقات تبدیل نہیں ہوں گے‘۔سنکیانگ میں چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ‘سنکیانگ کے حوالے سے مغربی میڈیا اور حکومتوں کے مؤقف اور چین کے مؤقف میں فرق ہے، ہم چینی مؤقف کو تسلیم کرتے ہیں‘۔انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے مستقبل کی اقتصادی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔انہوں نے بتایا کہ ’جلد گوادر کا دورہ کروں گا تاکہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار کا معائنہ کرسکوں گا اور جلد چین کے دورے کا بھی منتظر ہوں‘۔انہوں نے کہا کہ ’چین کے دورے میں پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر بات کروں گا’۔پاکستان اور چین کے قریبی سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ’سی پیک کا اگلا مرحلہ پاکستان کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے، ہمارے پاس خصوصی اقتصادی زون ہوں گے، ہمیں اُمید ہے کہ چینی صنعت ان خصوصی زونز کی طرف متوجہ ہوگی، ہم انہیں مراعات دیں گے‘۔انہوں نے کہاکہ ’پاکستان میں لیبر سستی ہے اور اُمید ہے کہ چینی صنعتکار اس طرف متوجہ ہوں گے‘۔چین کی کمیونسٹ پارٹی کی عوام دوست پالیسی اور چین کی ترقی میں کردار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بہترین نظام ہے تاہم چین کی کمیونسٹ جماعت (سی پی سی) نے ایک متبادل نظام دیا ہے جس نے تمام مغربی جمہوریتوں کو مات دی ہے۔انہوں نے کہاکہ جس معاشرے میں حکمران طبقے کا احتساب ہو اور میرٹ ہو وہ کامیاب ہوتا ہے، اب تک یہ خیال تھا کہ جمہوریت کے ذریعے میرٹ پر حکمران منتخب ہوتے ہیں اور پھر اس قیادت کا احتساب بھی کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’تاہم سی پی سی نے انتخابی جمہوریت کے بغیر تمام مقاصد زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کیے ہیں‘۔مسٹر عمران خا ن نے کہا کہ ’کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران دیکھا کہ ان کا ٹیلنٹ کی تلاش اور پھر اس کی تربیت کرنے کا نظام کسی بھی انتخابی جمہوریت سے بہتر ہے‘۔انہوں نے کہاکہ ’تیسری بات یہ ہے کہ یہ بہت لچکدار نظام ہے، جب وہ کوئی چیز تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ نظام اس کی حمایت کرتا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’ہمارے معاشرے اور یہاں تک کہ مغربی جمہوریتوں میں کسی نظام میں تبدیلی بہت مشکل ہے، آپ ہمیشہ وہ نہیں کرسکتے جو معاشرے کے لیے بہتر ہو‘۔پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ’چین نے اس لیے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ وہ اپنے نظام میں تیزی سے تبدیلی لاتے ہیں، جب وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نظام کام نہیں کر رہا وہ اسے تبدیل کردیتے ہیں‘۔انہوں نے کہاکہ ’چوتھی بات طویل المدتی منصوبہ بندی ہے، انتخابی جمہوریت میں صرف اگلے 5 سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’ہم چین سے زراعت کے شعبے میں تعاون کے خواہاں ہیں، پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور ہم نے اپنی زرعی پیداوار بڑھانے پر خاص توجہ نہیں دی، اُمید ہے کہ ہم چین کی جدید زرعی مہارت سے استفادہ کرسکتے ہیں‘۔چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت کے انداز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی جس عمل کے ذریعے اس مقام تک پہنچے ہیں اس کے لیے انہوں نے 30 سال کی جدو جہد کی، انہوں نے دیہات کی سطح سے جدوجہد کا آغاز کیا اسی محنت سے وہ لیڈر بنے‘۔پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کے 70 سال کے خطے پر اثرات کے خطے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور چین کے تعلقات بہت خصوصی ہیں، چین نے ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا‘۔انہوں نے کہا کہ ’چین اور اس کے لوگوں کا پاکستانیوں کے دلوں میں خاص مقام ہے، دونوں ممالک کے تعلقات روز بروز مضبوط ہورہے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ ’چین اور امریکہ کے اختلافات سے پیچیدگیاں سامنے آئی ہیں، اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ امریکہ اور دیگر مغربی قوتیں پاکستان جیسے ممالک کو کسی ایک گروپ کا ساتھ دینے پر مجبور کریں‘۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم تعلقات میں جانب داری کیوں کریں، ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں‘۔