اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عمر عابدی نے کہا ہے کہ طالبان نے انہیں بتایا کہ لڑکیوں کو بہت جلد سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت دینے کا اعلان کریں گے۔خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق یونیسف کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عمر عابدی نے گزشتہ ہفتے کابل کا دورہ کیا تھا اور آج اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے 5 صوبوں میں پہلے ہی لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔افغانستان کے صوبوں بلخ، جاوزجان، سمنگن، قندوز میں ارزغان لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کے وزیرتعلیم نے انہیں بتایا کہ وہ لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول کی تعلیم جانے رکھنے کی اجازت دینے کے لیے فریم ورک پر کام کر رہے ہیں اور یہ ایک یا دو مہینوں کے درمیان شائع کیا جائے گا۔عمر عابدی نے کہا کہ ‘میں آپ کو آگاہ کر رہا ہوں کہ لاکھوں لڑکیاں مسلسل 27 روز سے سیکنڈری اسکول نہیں جارہی ہیں، ہم انہیں زور دے رہے ہیں کہ انتظار نہ کریں، جتنی ہم دیر کریں گے اتنا ہی ان لڑکیوں کی تعلیم کا نقصان ہوگا’۔ان کا کہنا تھا کہ ہر ملاقات میں طالبان پر زور دیا جارہا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی جائے جو لڑکیوں اور خود افغانستان کے نہایت اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ جب 2001 میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا تو مجموعی طور پر صرف 10 لاکھ افغان بچے اسکولوں میں تھے۔یونیسیف کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان میں ہر سطح پر اسکول کے بچوں کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ تک پہنچی تھی اور گزشتہ دہائی میں اسکولوں کی تعداد تین گنا زیادہ 6 ہزار سے بڑھ کر 18 ہزار ہوگئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں تعلیم کے میدان میں جو حاصل کیا گیاہے اس کو مزید مضبوط کیا جائے اور اس کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اس بہتری کے باوجود افغانستان میں 26 لاکھ لڑکیوں سمیت 42 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔عمر عابدی نے کہا کہ اگر تمام لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت دی جائے تو اس کے لیے روایتی مزاحمت پر قابو پانا ہوگا تاکہ ثانوی تعلیم کے لیے لڑکیوں کو اجازت ملی۔ان کا کہنا تھا کہ جن حکام سے میری ملاقات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ جب وہ تیار ہونے والا فریم ورک جاری کریں گے تو اس سے مزید والدین اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے لیے تیار ہوں گے کیونکہ روایتی طور پر معاشرے میں پائے جانے والے خدشات دور کردیے جائیں گے۔خیال رہے کہ طالبان کی 1996 سے 2001 کے دوران حکومت میں لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم کا حق نہیں دیا گیا تھا اور انہیں روزگار کی اجازت نہیں دی گئی۔تاہم 15 اگست کو امریکا اور بین الاقوامی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان پر خواتین کے حقوق کی بحالی کے حوالے سے شدید دباؤ ہے جبکہ طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ تعلیم کی اجازت دی جائے گی لیکن مخلوط تعلیم نہیں ہوگی۔اس سے قبل یونیسیف کے ڈپٹی چیف نے کابل میں کہا تھا کہ انہوں نے بچوں کے ہسپتال کا بھی دورہ کیا تھا اور وہاں جا کر حیرانی ہوئی کس طرح غذائی کمی کا شکار بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور ان میں سے چند نومولود تھے۔افغانستان کے صحت کے نظام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحت اور سماجی خدمات کا شعبہ تباہی کے دہانے پر ہے، ادویات کی خطرناک حد تک کمی ہے جبکہ بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے، پولیو اور کووڈ-19 کے حوالے سے بدستور شدید خدشات ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے قبضے سے قبل بھی ملک بھر میں ایک کروڑ بچوں کو زندہ رہنے کے لیے انسانی بنیاد پر امداد کی ضرورت تھی اور ان میں دس لاکھ بچے، اگر ان کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو غذائی قلت کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دنیا پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کی معیشت کو تباہ ہونے سے بچانے اور عوام کی مدد کے لیے تعاون کریں۔عمر عابدی نے بھی اسی اپیل کو دہراتے وہئے کہا کہ صورت حال خراب ہے اور مزید خراب ہو رہی ہے۔