امریکا نے ایران کے اسلامی پاسداران انقلاب کور (آئی آر جی سی) کے ڈرون پروگرام کوخطے کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کردی۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے کہا کہ آئی آر جی ایس کی جانب سے ایران کے حمایت یافتہ لبنانی جنگجو گروپ حزب اللہ اور بحران زدہ ایتھوپیا میں استعمال کے لیے بغیر ڈرائیور چلنے والی گاڑیاں(یو اے ویز) یا ڈرون فراہم کیے جارہے ہیں۔ڈپٹی سیکریٹری خزانہ ویلی ایڈیمو کاکہنا تھا کہ ایران کی جانب سےخطے میں یو اے ویز کا پھیلاؤ بین الاقوامی امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے، ایران اور اس کے خفیہ انتہا پسند گروپ امریکی فورسز اور اس کے اتحادیوں پر حملے کے لیے یو اے ویز کا استعمال کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’محکمہ خزانہ ہمیشہ ایران سے غیر ذمہ دار رویے اور پُرتشدد عمل پر اس سے جواب طلب کرے گا‘۔جمعے کو اعلان کی گئیں نئی پابندیوں میں 4 افراد کو ہدف بنایا گیا جس میں پاسداران انقلاب کور کے بریگیڈئر جنرل سعید آغا جانی بھی شامل ہے، جن کے بارے میں امریکا نے کہا وہ بیرون ملک ایرواسپیس کی یو اے وی کی کارروائیاں دیکھتے ہیں۔محکمہ خزانہ کے اقدامات میں مزید دو کمپنیوں کو ہدف بنایا گیا ہے جن میں کیمیا پارٹ سیوان کارپوریشن اور اوجے پرویش مادو نفر کارپوریشن شامل ہے، جو امریکا کے مطابق اس پروگرام کے لیے مرکبات اور دیگر سہولیات فراہم کرتا ہے۔محکمہ خزانہ کا کہنا تھا کہ پابندیوں کے تحت متعلقہ افراد کو امریکی حدود میں جائیداد تک رسائی حاصل نہیں ہوگی جبکہ امریکیوں کو بھی ان افراد سے لین دین کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کی جائیداد منجمند کردی گئی۔یورپی یونین کے نمائندے کا کہنا تھا کہ برسلز میں ایران اور عالمی طاقتیں 2015 کے جوہری معاہدے میں واپس آنے کا راستہ تلاش کر رہی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ ویانا میں مذاکرات بحال کرنے لیے جلد از جلد تاریخ پر اتفاق ہوسکے۔ایران کے سرکردہ مذاکرات کار نے رواں ہفتے برسلز میں مذاکرات کے بعد کہا تھا کہ نومبر کے آخر میں ویانا میں مذاکرات دوبارہ ہوں گے۔یورپی یونین کے ترجمان پیٹر اسٹینو کا کہنا تھا کہ 27 اکتوبر کو برسلز میں ہونے والے مذاکرات ’مفید‘ اور ’معاون‘ تھے، جہاں ویانا مذاکرات کی بحالی کا راستہ نکالا گیا۔معمول کی بریفنگ میں پیٹر اسٹینو کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، ان میں ایران اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل دستخط کنندگان شامل ہیں، جو ایک تاریخ مقرر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جلد از جلد ویانا مذاکرات بحال کیے جاسکیں‘۔اپریل میں تہران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے میں واپس آنے کے لیے گفتگو کا آغاز ہوا تھا، جس سے تین سال قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دستبردار ہوگئے تھے اور ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھی۔امریکا کے اس عمل سے ناصرف ایران کی معیشت بلکہ ایرانی تیل کی برآمدات بھی شدید متاثر ہوئی تھی۔لیکن مذاکرات رواں برس جون میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تعطل کا شکار ہوگئے تھے اور اب خدشہ ظاہر کیا جارہا ہےکہ ویانا میں مذاکرات دوبارہ شروع ہونے پر ابراہیم رئیسی سخت رویہ اپنائیں گے۔